بیروزگاری کے خاتمے کیلئے ایک کاوش

لکھاری کو قوت تخلیق کے ساتھ اگر رشتہ جوڑنا ہوتو اس کی اساس حقائق پر ہونی چاہیے قلمکار نفرت اور محبت کو الگ رکھ کر لکھے بغیر اپنے کسی موضوع کے ساتھ تخلیق کارشتہ قائم نہیں رکھ سکتا۔موضوع سے رشتہ جوڑنے سے قبل قلمکار کو اپنے دل کی دھڑکنوں کی طرف دھیان دینا اور دل کی پکار کو سننا چاہیے۔میں ایک انسان ہوں خطاکار اور گناہ گار اناپرستی اور خود پرستی ہر انسان کی طرح مجھ میں بھی موجود ہے کسی کی میں پر میری میں بھی جوش مارتی ہے لیکن جب ایک غیرجانبدار لکھاری کے طور کچھ اچھا دیکھتا ہوں تو وہاں اپنی میں کو مار کر قابل تعریف عمل پر قلم کو حرکت دینا مجبوری سی بن جاتی ہے۔خطہ پوٹھوہار میں ظاہر وپوشیدہ ایسے سینکڑوں لوگ موجود ہیں جو اپنی دھرتی کا قرض چکانے میں مصروف ہیں۔جو غریب خاندانوں کی مالی معاونت ماہانہ راشن فراہمی کے علاوہ مستحقین کو علاج معالجے کی فری سہولیات تک مہیا کررہے ہیں۔بیول میں موجود فری علاج وادویات کی فراہمی میں مصروف زرفاضل اسپتال کے روح رواں چوہدری آزاد ہوں یا درجنوں خاندانوں کو ماہانہ راشن کی فراہمی اور نوجوانوں کو کھیلوں کے لیے مالی تعاون فراہم کرکے گراؤنڈ آباد کرنے والے طارق پرویز غریب گھرانوں کی بچیوں کی شادیوں میں تعاون کرنے اور دیگر معاملات پر مالی مدد کرنے والے چوہدری ابرار ہوں یا سویرا سینٹرٹرسٹ کے اکابرین یا ان جیسے دیگر صاحب ثروت لوگ جو کسی نہ کسی طور انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہیں سب اپنی اپنی جگہ قابل تعریف ہیں۔لیکن ایک کرنے کا کام جو ان سب کی نگاہوں سے اوجھل رہا جس کی جانب میں نے بطور لکھاری متعدد بار توجہ مبذول کروائی۔وہ علاقہ میں بڑھتی بے روزگاری سے متعلق تھا یہاں ہمارے سمندر پار مہربان اپنا سرمایہ کوٹھیاں بنانے پر صرف کرتے ہیں جبکہ وہ خود ان کوٹھیوں میں رہائش نہیں رکھتے بلکہ کوٹھی کی تعمیر کے بعد انہیں کوٹھی کی دیکھ بھال کے لیے ایک ملازم بھی رکھنا پڑتا ہے۔میں نے کافی سال قبل سمندر پار رہنے والے پوٹھوہار کے سپوتوں سے گزارش کی تھی کہ علاقے میں سمال انڈسٹری پر انویسٹ کریں۔اس سے جہاں آپکا سرمایہ کاروبار میں انویسٹ ہوکر منافع دے گا وہیں علاقہ سے بے روزگاری کے خاتمے میں معاون ثابت ہوگا۔لیکن ایسا نہ ہوسکا اس وقت مہنگائی کے ہاتھوں ہمارا معاشرہ مسلسل تنزلی کی جانب گامزن دیکھائی دیتا ہے بھوک اور بے روزگاری سے لوگ خودکشیوں پر مجبور ہیں۔ امید کے چراغ بجھ رہے ہیں لیکن جب اندھیرا گہرا ہوجائے تو کہیں نزدیک ہی اجالا بھی منتظر ہوتا ہے علاقہ سے بیروزگاری کے اندھیرے دور کرنے کے لیے پہلا چراغ چوہدری اشتیاق کی جانب سے جلایا گیا ہے۔چوہدری اشتیاق نے بیول کلر سیداں روڑ پر انٹرنیشنل ہسپتال سے کچھ آگے لب سڑک مصالحہ جات کی چھوٹی فیکڑی لگانے کا ارادہ کیا ہے اور اس سلسلے میں فیکٹری کی عمارت کا کام زور وشور سے جاری ہے۔چوہدری اشتیاق کی یہ کاوش بارش کا پہلا قطرہ کہی جاسکتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ چوہدری اشتیاق کی اس فیکٹری پر انویسٹ ایک کاروبار کے طور پر ہے وہ یقیناً اس انویسٹ سے کاروبار کرکے منافع بھی کمائیں گے۔لیکن یہ بات مدنظر رکھنا بہت ضرروی ہے کہ اس فیکٹری کے وجود میں آنے سے علاقے کے دس پندرہ بیس یا کچھ کم زیادہ افراد کو روزگار بھی میسر ہوگا کام تو چوہدری اشتیاق پہلے بھی کررہے ہیں لیکن اس کاروبار کو باقائدہ انڈسٹری کی شکل دے کر وہ علاقہ میں ایک نئی روایت کی بنیاد ڈال رہے ہیں ان کی دیکھا دیکھی ہمارے دیگرکاروباری لوگ بھی اس جانب توجہ دیں گے اورعلاقے میں سمال انڈسٹری کو فروغ دینے میں کردار ادا کریں گے۔چوہدری اشتیاق سے بعض ایشو پر سنگین ترین اختلافات اور ناراضگی کے باوجود میں اُن کی اس کاوش کو قابل تعریف عمل سمجھ کر اسے خراج تحسین پیش کرتا ہوں میری انا اور میری ناراضگی علاقے کی بہتری کے اس عمل کے سامنے بے معنی ہے اور یہی میرا اصول رہا ہے اچھا کام دوست کرے یا دشمن اس کی تعریف ضرور کی جانی چاہیے۔تو ویلڈن چوہدری اشتیاق صاحب۔میرے اور پنڈی پوسٹ کے قارئین کے علاوہ علاقہ کے تمام لوگ آپکے اس فیکٹری کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں