بیت المقدس کا تحفظ اور امت مسلمہ/ساجدمحمود

ساجدمحمود
مسجدِ اقصٰی کو بیت المقدس کے نام سے بھی یاد کیا جاتاہے اقصیٰ کے معنی دور کے ہیں یعنی دور والی مسجد اور اس مسجد اور بیت اللہ کی تعمیر میں قدرے مشترک بات یہ ہے کہ دونوں مقدس مقامات کی تعمیر میں باپ بیٹوں نے حصہ لیا بیت المقدس کی تعمیر حضرت داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے کی جبکہ بیت اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کے حصے میں آئی یہ مسجد بنی اسرائیل کا مرکز رہی ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کی جائے پیدائش ہے اس جگہ کو مسلمانوں کے قبلہ اول ھونے کا اعزاز حاصل ہے تحول قبلہ سے قبل مسلمان قریبًا سولہ سترہ ماہ تک بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے حضورﷺ کی خواہش تھی کہ قبلہ بیت المقدس کی بجائے مسجدِ حرام ھو تاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کیساتھ بھی نسبت قائم ہو جائے قرآن مجید نے اسکا تذکرہ ان الفاظ میں کیاہے ہم آپﷺ کے بار بار رخ مبارک کا آسمان کی طرف دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں پس ھم آپ ﷺ کا قبلہ مقرر کر دیں گے جس پر آپ راضی ھوں بیت المقدس خانہ کعبہ اور مسجدِ نبوی کے بعد مسلمانوں کا تیسرا مقدس مقام ہے 1967 عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا اور بعد ازاں اسے اپنا مستقل حصہ قرار دے دیا جس کے باعث یہودیوں کی اس علاقے میں آباد کاری کی راہ ہموار ھو گئی اور اس جاری کشمکش میں ہزارہا بے گناہ افراد تہ تیغ کر دیئے گئے اور اب بھی فلسطینی خوف اورگھٹن کی فضا میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اقوامِ متحدہ بھی نہتے مسلمانوں کو انصاف دلانے میں ناکام ثابت ھوئی ہے منصف کا کام انصاف فراہم کرنا ہے اگر منصف ہی ظالم کی پشت پناہی پر کھڑا ھو جائے تو انصاف کا حصول ناممکن ہے رواں ماہ کے شروع میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیطرف سے تل ابیب سے یروشلم دارالحکومت کی منتقلی کے اعلان کے بعد مسلم امہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور اس فیصلے کے خلاف مختلف فورم پر شدید ردعمل اور تحفظات کا سلسلہ جاری ہے اور امریکی صدر کے اس اقدام سے مشرقی وسطٰی میں امن عمل متاثر ھونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں پاکستان کیطرف سے بھی سینٹ میں مذمتی قرار داد منظور کی گئی اور ترکی کے صدر طیب اردوآن کی کوشش سے بدھ کے روز استنبول میں منعقدہ تنظیم برائے اسلامی کونسل کے سربراہان اجلاس میں بھی متفقہ قرار داد منظور کی گئی جس میں مشرقی یروشلم کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کی بات کی گئی ہے تاہم مسلم دنیا کے اندر پھیلی بے چینی آپسی محاذ آرائی اور تناؤکے پیش نظر اس فیصلے پر دیرپا عملی اقدامات اٹھانے میں مشکلات درپیش ہیں دوسری طرف بعض بااثر مسلم ممالک اور امریکہ کے درمیان قائم مضبوط تجارتی روابط کی بنا پر اس معاملے پر زبانی جمع خرچ کا فارمولا نافذالعمل ھو گا حال ہی میں عرب ممالک کی طرف سے امریکہ کیساتھ اربوں ڈالر کے اسلحہ خریداری کے معاہدے طے کیے گئے جسکی بنا پر انسانی زہن میں مختلف نوعیت کے خدشات کا جنم لینا ایک فطری امر ہے مسلم ممالک میں جاری حالیہ کشیدگی جن میں لیبیا عراق یمن شام اور افغانستان لبنان شامل ہیں میں بیرونی مداخلت اور بعض مسلم ممالک کیطرف سے مسلک کی بنیادوں پر تنازعات کی جاری جنگ مسلم امہ کو تاریکی میں دھکیلنے کا سبب بن رہی ہے کشمیر میں جسطرح نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے اور برما کے روہنگیا مسلمانوں کا جسطرح قتلِ عام کیا گیا اس دوران مسلم دنیا کا کردار نہایت تکلیف دہ تھا مگر موجودہ حالات میں مسلم دنیا کا ایک پلیٹ فارم پر متفق ھو کر اپنے حقوق کے حصول کی جنگ لڑنا ناگزیر ھو گیا ہے اگر موجودہ حالات کے تناظر میں مسلم ممالک کے آپسی تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو انکے درمیان بداعتمادی اور خلیج کی فضا برقرار ہے جسکی وجہ سے سپر پاور کو اپنے اور اسرائیل کے مقاصد کے حصول کی راہ میں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا اور نہ ہی موجودہ دور میں مسلم امہ کے پاس ایسی دور اندیش قیادت دستیاب ہے جو مسلم برادری کو ان درپیش مسائل سے چھٹکارا دلانے کیلئے بطورِ نجات دہندہ کا کردار ادا کر سکے البتہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم وہ واحد دور اندیش سیاسی بصیرت کے حامل سیاست دان تھے جنکے پاس مسلم امہ کو درپیش مسائل سے نجات دلانے کیلئے ضابطہ اخلاق موجود تھا تاہم انکی وفات سے نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم دنیا کو بھی ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوششوں کو شدید دھچکہ لگا ہے تاہم موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ تمام مسلم ممالک آپسی تجارت اور دفاعی معاہدوں کو فروغ دیں اور تصفیہ طلب مسائل کا حل مذاکراتی عمل کے زریعے ممکن بنایا جائے اگراب بھی مسلم امہ نے یکجا ھو کر درپیش مسائل کے حل کیلیے متحرک اور فعال کردار ادا نہ کیا اور موجودہ صورتحال جوں کی توں برقرار رہتی ہے تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب بین الآاقوامی طاقتوں کے اشارے پر تیل کے ذخائر تک رسائی کیلئے مشرقی وسطیٰ کے صحراؤں پر پراکسی جنگ لڑی جائے گی جسکے نتائج مسلم ممالک کیلئے انتہائی خوفناک ہونگے

اپنا تبصرہ بھیجیں