بھیک کی آڑ میں جسم فروشی

مائیں‘ بہنیں‘بیٹیاں جنسی بھیڑیوں کے نشانے پر

عورت جسے ہمیشہ عزت وآبرو اورمتاع حیات نہ صرف سمجھا گیا بلکہ اس کی خاطر زمانے اور ذات میں کئی انقلاب بھی برپا ہوئے۔لیکن افسوس کہ ہر دور میں عورت کااستحصال بھی اسی طرح جاری رہا۔عزت کے جنازے نکلتے رہے کیونکہ قانون اندھا ہوتا ہے لیکن وقانون کے رکھوالے ہرگزاندھے نہیں ہوتے ہمارے یہاں اس کے بلکل الٹ معاملہ ہے یہاں قانون تو سب دیکھتا ہے لیکن قانون کے رکھوالے اندھے ہیں انہیں معاشرے میں پنپتی برائیاں دیکھائی نہیں دیتی اکثر برائیاں تو منتھلی کے دبیز کپڑے کی پٹی قانون کی آنکھوں پر باندھ کراسے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم کردیتی ہیں۔جبکہ کچھ برائیوں کو قانون کے رکھوالے اپنے طور جائز سمجھ کر اس جانب سے آنکھیں موند لیتے ہیں۔

انسان کی حرص اور دولت کمانے کے لیے غیر قانونی اور غیرشرعی طریقوں پرعمل اب دنیا کا دستور بن چکا ہے جس کے باعث انسان کائنات کی خوبصورتی کو اپنے گھناونے اعمال وفعل سے بدصورتی میں بدلنے میں مصروف ہے۔سماجی برائیوں میں جس طرح شدت آرہی ہے اس سے ہماری نسل نو مکمل طور پر غیر محفوظ ہوچکی۔منشیات کی لعنت بڑھتے بڑھتے ہمارے تعلیمی اداروں تک در آئی ہے جسم فروشی کے کاروبار نے زناء کو عام کردیا ہے۔بیول اور گردو نواح میں غیر قانونی طور پر(قانون کرایہ داری ایکٹ کو فالو کیے بغیر) آبسنے والوں نے اس علاقے کو پرگندا کردیا ہے۔اکثر گھرانے جسم فروشی کے دھندے میں ملوث ہیں۔جسم فروشی کادوسرا بڑا نیٹ ورک بیول میں خوبرو نوجوان بھکاری لڑکیوں کے ذریعے چلایا جارہاہے

جو بظاہر بھیک مانگتی دیکھائی دیتی ہیں۔لیکن اصل میں وہ بھیک کی آڑ میں جنسی ہوس کے مارے شکار تلاش کرتی ہیں اور یہ روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔اس عمل سے علاقے میں بے راہ روی تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔نسل نو جہاں منشیات کی عادی ہورہی ہے وہیں ان جسم فروش بھکاری خواتین کے ہاتھوں اپنی جوانیاں برباد کررہی ہے۔ان
بھکاری خواتین کی اکثریت اس قوم سے ہے جن میں شادی کے وقت مرد کی جانب سے لڑکی کے کما کر لانے کی باقائدہ شرط منوا کر شادی کی جاتی ہے اس قوم کے مرد سارا اپنی جھونپڑیوں میں لیٹ کریا گھوم پھیر کر وقت گذارتے ہیں جبکہ خواتین صبح سویرے بھیک مانگنے اپنی رہائشگاہ کے ارد گرد کے علاقوں میں پھیل جاتی ہیں۔

جن میں اکثریت جسم فروشی کرتی ہے۔ہمیشہ سے سفلی خواہشات اور جذبات نے انسان کو وحشیوں کی صف میں کھڑا کررکھا ہے وحشت اور ہوس نے انسان کو بلندی سے پستی کی جانب دھکیلا ہے اس بات کو جانتے سب ہیں لیکن مانتا کوئی نہیں۔انسان کا ذہن ہو گھر ہو یا کوئی معاشرہ مکڑی کا جالا ہمیشہ اس کی بوسیدگی کا مظہر ہوتا ہے ہمارے معاشرے میں کچھ ذہنوں کو بھی عنکبوت کے اس کمزور سے تار نے بڑی مضبوطی سے جکڑ لیا ہے کہ چاہ کربھی وہ اس غلاظت سے نکل نہیں پارہے۔نہ جانے کب تک ہم ان لوگوں کو برداشت کرتے رہیں گے۔کب تک ہم اپنی نسل نو کی تباہی کا تماشہ دیکھیں گے۔آواز اُٹھائیں کہ وقت تیزی سے گذر رہا ہے یہ کردار ہماری آئندہ نسل کو گھن زدہ کررہے ہیں بولیں کہ ہماری خاموشی تباہی کا سفر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں