22 اپریل 2025 کے دن مقبوضہ کشمیر کے پُر فضا مقام پاہلگام میں سیاحوں پر نامعلوم مسلح افراد نے اندھا دھند فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں 26 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ حملہ آوروں نے مذہب اور شناخت کی بنیاد پر افراد کو نشانہ بنایا، اور چند گھنٹوں بعد دی ریزسٹنس فرنٹ نامی گروہ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی۔ اس واقعے نے نہ صرف انسانی دلوں کو دہلا دیا بلکہ برصغیر میں دو جوہری قوتوں کے درمیان تعلقات کو ایک بار پھر کشیدگی کی دلدل میں دھکیل دیا۔
بدقسمتی سے بھارت نے اس حملے کو ایک مرتبہ پھر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کا ذریعہ بنا لیا۔ ابھی خون خشک بھی نہ ہوا تھا کہ بھارتی حکومت نے براہ راست پاکستان پر حملے کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کا الزام لگا دیا۔ کسی قسم کی شفاف تحقیق، ثبوت یا انٹیلی جنس رپورٹس کو منظر عام پر لانے کے بجائے محض الزام تراشی کو بنیاد بنا کر پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں، بلکہ بھارت کی یہ ایک دیرینہ عادت بن چکی ہے کہ ہر حملے کا الزام بغیر تحقیق پاکستان پر عائد کر دیا جاتا ہے۔ چاہے وہ پلوامہ ہو، اوڑی ہو یا پٹھان کوٹ۔ ہر واقعے کو خارجہ پالیسی کا ہتھیار بنا کر دنیا کے سامنے پاکستان کے خلاف استعمال کیا گیا۔
صورتحال اس وقت مزید بگڑ گئی جب بھارتی میڈیا نے غیر پیشہ ورانہ اور اشتعال انگیز کردار ادا کرتے ہوئے اپنی ساکھ کو ایک مرتبہ پھر داؤ پر لگا دیا۔ مختلف چینلز نے اپنی ریٹنگز بڑھانے کے لیے جنگی نعروں، فائرنگ کی جعلی آوازوں اور جذباتی عنوانات کے ساتھ عوام کو مشتعل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
صحافت کی آڑ میں پروپیگنڈا کیا گیا اور پاکستان کے خلاف ایسا ماحول بنایا گیا جیسے وہ براہِ راست جنگ کے دروازے پر دستک دے رہا ہو۔ ایسے حساس مواقع پر میڈیا کا کردار ذمہ داری، توازن اور حقائق پر مبنی ہونا چاہیے، مگر بھارتی میڈیا نے جھوٹ اور سنسنی خیزی سے ماحول کو مزید زہریلا کر دیا۔
اس واقعے کے بعد سفارتی سطح پر بھی غیر متوازن اقدامات دیکھنے کو ملے۔ بھارت نے پاکستان کے ساتھ تمام اعلیٰ سطحی روابط منقطع کر دیے، تجارتی سرگرمیوں کو بند کیا، اٹاری-واہگہ سرحد کو بند کر دیا،
پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کر دیے اور یہاں تک کہ سندھ طاس معاہدے کو بھی معطل کرنے کا عندیہ دیا، جو اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں بین الاقوامی معاہدہ ہے۔ پاکستان نے ان الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے نہ صرف جوابی اقدامات کیے بلکہ عالمی برادری کو باور کرایا کہ بھارت کی طرف سے کیا جانے والا ردعمل غیر ذمہ دارانہ اور خطے کے امن کے لیے خطرناک ہے۔
سیاسی منظرنامے میں ان واقعات نے ایک نئی کشیدگی کو جنم دیا ہے۔ پاکستان کے وزیرِ دفاع نے خبردار کیا کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کو براہِ راست ”جنگی اقدام” سمجھا جائے گا، جو کہ ایک سنگین انتباہ ہے۔ بھارت کی قیادت کی طرف سے بھی بیانات میں اشتعال، انا اور بالادستی کی بو نمایاں ہے۔ دونوں ممالک جوہری طاقت کے حامل ہیں اور کسی بھی طرح کا براہ راست تصادم نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا بھر کے لیے تباہ کن نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔
عالمی برادری، خاص طور پر اقوامِ متحدہ، امریکہ، چین اور یورپی یونین نے عمومی سطح پر ”تحمل کا مظاہرہ” کرنے کی تلقین تو کی، مگر بھارتی
میڈیا اور حکومت کی جانب سے پھیلائی جانے والی نفرت انگیزی پر کوئی مؤثر ردعمل سامنے نہیں آیا۔ یہ رویہ عالمی برادری کے دوہرے معیار کو بے نقاب کرتا ہے، جہاں ایک طرف دہشت گردی کی مذمت کی جاتی ہے، تو دوسری طرف بھارت جیسے ملک کو، جو ایسے سانحات کو سیاسی اور جنگی ہتھیار بناتا ہے، کھلی چھوٹ دی جاتی ہے۔
اس وقت جنوبی ایشیا ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ پاہلگام حملے کی شفاف تحقیقات، اصل ذمہ داروں کی نشاندہی اور سزا ایک فطری اور ضروری عمل ہے مگر اس واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنانا، سفارتی تعلقات توڑنا اور جنگ کا ماحول پیدا کرنا عقل و دانش کے خلاف ہے۔ پاکستان نے بارہا امن، مذاکرات اور باہمی احترام کی بات کی ہے اور یہی وہ راستہ ہے جو اس خطے کو ایک محفوظ اور مستحکم مستقبل دے سکتا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت اپنے رویے پر نظرِ ثانی کرے، جنگی جنون کو چھوڑ کر عوامی فلاح، علاقائی ترقی اور باہمی امن کی طرف بڑھے۔ بصورت دیگر، اگر حالات یونہی بگڑتے رہے تو آنے والے دنوں میں ایک معمولی چنگاری بھی پورے برصغیر کو راکھ میں تبدیل کر سکتی ہے۔