66

بھائی بھائیاں دیاں بہاواں

بسم اللہ بسم اللہ کر کے ہتھ قلم نوں لاواں
چمڑا کاغذ،خون سیاہی‘ھڈیاں قلم بناواں

مرحوم پیارے بھائی محمد سلیم قریشی بلاک آفیسر پنجاب فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ 28 مء 1972 کو کہوٹہ میں اسی عارضی دنیا میں تشریف لائے۔والد محترم محمد فاضل قریشی اس وقت جی ایچ کیو راولپنڈی میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے
تھے۔

مرحوم بھائی نے ابتداء تعلیم ٹینچ بھاٹہ راولپنڈی سے حاصل کی۔والدین کی خواہش تھی کہ مرحوم بھائی کو حافظ قرآن اور عالم دین بنایا جائے جس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پرائمری کے بعد مدرسہ تجوید القرآن کالج روڈ راولپنڈی میں داخل کروا دیا گیا۔اسکے بعد والد محترم جلدہی ریٹائرڈ ہو کر آبائی گاؤں سہر شفٹ ہو گئے

اور نلہ مسلماناں کے گاؤں کھندوٹ میں گھر بنایا اور دوسال تک مسجد میں امامت کے فرائض سر انجام دیئے والد محترم یکم جنوری 1985 کو برین ہیمرج کے باعت خالق حقیقی سے جا ملے۔

اس وقت تک مرحوم بھائی قرآن پاک کے 12 سپارے حفظ کر چکے تھے ہمارا گھر ایسی جگہ تھا جہاں اس وقت قریب کوء آبادی نہیں تھی۔ہم بہن بھائی سب چھوٹے تھے اس لئے مرحوم بھائی کو مدرسہ چھوڑ کر اپنی نئی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیئے گھر آنا پڑا۔

اس کے بعد گورنمنٹ مڈل سکول پنڈ بینسومیں داخلہ لیا جہاں سے مڈل مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول چوآخالصہ میں داخلہ لیا جس کے لیئے انتہائی مشکل حالات میں گھر سے صبح نماز فجر پڑھ کر نکلتے چار کلومیٹر دوبیرن کلاں تک جنگل بیابان علاقہ ہوا کرتا تھا بھائی پیدل سفر کر کے وہاں پہنچتے

اور وہاں ٹیلر ماسٹر مرحوم مظہر عرف کالا کی دکان سے سائیکل لیتے اور وہاں سے چوآ خالصہ سکول کا پانچ کلومیٹر کا سفر سائیکل پر کرکے وہاں پہنچتے۔(پہاڑی سلسلے کی وجہ سے اور تب سڑک بھی نہیں ہوا کرتی تھی

اس لیئے وہ اپنی سائیکل یہاں کھڑی کر جایا کرتے تھے)اول کلاس سے لے کر میٹرک تک ہر کلاس میں اول پوزیشن لینے کا اعزار مرحوم بھائی کو حاصل تھا۔

آپ دوران تعلیم مذہبی کتابوں کے علاوہ نوائے وقت اخبار ہمدرد کا نونہال ڈائجسٹ پڑھتے اور ان میں کالم بھی لکھتے تھے۔میٹرک مکمل کرنے کے بعد مرحوم بھائی جاب کی تلاش میں کراچی تک گئے

بالآخر اپنی قابلیت کے بل بوتے پر محکمہ جنگلات پنجاب میں سلیکٹ ہوئے۔سب سے بڑے بھائی محمد نعیم قریشی جو کہ ٹی این ٹی میں سروس کر رہے تھے

وہ والد صاحب کی وفات کے بعد جاپان اور پھر برطانیہ شفٹ ہو گئے تھے۔تیسرے بھائی محمد کلیم قریشی بھی مدرسہ تجوید القرآن میں حفظ قرآن کر رہے تھے

کہ خرابی صحت کی وجہ سے وہ بھی تعلیم ادھوری چھوڑ کر گاؤں آگئے اور گورنمنٹ ہائی سکول سہر سے میٹرک مکمل کی اور فرنٹیئر کور بلوچستان میں ملازمت اختیار کی اور صوبیدار ریٹائرڈ ہوئے۔

قدم قدم پہ الجھتی رہی زندگی ہم سے بڑی مشکل سے ہم نے توازن اپنا بحال رکھا اسکے بعد 1999 میں اپنے بھائیوں کی کاوشوں سے میں نے بھی فرنٹیئر کور بلوچستان جوائن کر لی

اور زندگی کا انتہائی اہم حصہ 24 سال بلوچستان کے سنگلاح پہاڑوں اور بارود کی برستی بارش میں گزارے اور اپنی ماں کی خاص دعاؤں کے نتیجے میں ہم دونوں بھائی بلوچستان سے الحمدللہ دونوں ہاتھ دونوں پاؤں سلامت لے کر گھر واپس آ گئے۔(دونوں ہاتھ اور پاؤں کا ذکر اس لیئے کیا کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ڈیرہ بگٹی سوئی

گیس فیلڈ اور دیگر کئی آپریشنلز ایریا میں بارودی سرنگوں پہ گاڑیاں چڑھتی تھیں اور جو لوگ ان میں زندہ بچ جاتے کسی کے ہاتھ کٹ جاتے اور کسی کے پاؤں)ہم بھائیوں نے اپنی ساری زندگی اللہ اور اسکے رسول ص کے بعداپنے مرحوم بھائی کے سہارے گزاری ہماری ہر خوشی ہمارے مرحوم بھائی سے جڑی ہوتی تھی۔

ہمارے مرحوم بھائی نے 45 سال والدہ کی خدمت میں دن رات ایک کیا جسکی وجہ سے وہ والدہ کے زیادہ قریب تھے۔مرحوم بھائی نے تین دھائیاں محکمہ فاریسٹ میں جاب کی انکی دیانتداری اور ایمانداری کی وجہ سے انکے آعلی افسران بھی انھیں ڈیئر سر کہہ کر مخاطب کرتے تھے

۔مرحوم بھائی کی کوشش تھی کہ ہماری فیملی کا ہر بچہ حافظ قرآن ہو ان کی بڑی بیٹی الحمدللہ حفظ قرآن مکمل کر چکی بھائی محمد کلیم قریشی کا بیٹا بھی مرحوم بھائی کی کوشش سے حفظ قرآن مکمل کر چکا مرحوم بھائی پرامید تھے

کہ انکا چھوٹا بیٹا محمد ابوبکر قریشی جو کہ ابھی چار سال کا ہے بھی حفظ کیلئے مدرسہ جایا کرے گا۔آپ خود بھی قرآن پاک تفسیر کیساتھ پڑھتے تھے۔ان کے دل میں قرآن پاک کی

ایک خاص محبت تھی جسکا ثبوت انھیں اس بات کا افسوس رہتا اور کئی بار اظہار بھی کیا کہ اپنے مسائل اور وسائل کی وجہ سے میں قرآن پاک مکمل حفظ نہیں کر سکا۔

مرحوم بھائی نظر بد کا دم بھی قرآنی آیات سے کیا کرتے تھے۔جب والد محترم کی وفات ہوئی تب میری عمر دو سال تھی میں بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا مرحوم بھائی کے ہوتے ہوئے

ہمیں والد کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔مرحوم بھائی بہت اچھے اخلاق کے مالک تھے جسکا واضح ثبوت آپ کا نماز جنازہ تھا جس میں عوام کا جم غفیر تھا۔خطہ پوٹھوہار میں

آپ نے اپنا اور اپنے خاندان کا نام روشن کیا۔11 نومبر2024 کی رات ہم پر قیامت بن کر گری اور ہماری ساری فیملی بچوں بڑوں سب کو یتیم کر گئی جب بھائی معمول کیمطابق رات کو آفس سے واپس گھر آئے

نماز عشاء پڑھی اور ابھی تک جائے نماز پر بیٹھے ہی تھے کہ سینے میں درد محسوس کیا اپنی زوجہ سے پلیٹ منگوائی اس میں سورت فاتحہ لکھی اور اس میں پانی ڈال کر پی رہے تھے

کہ اللہ پاک کا بلاوا آ پہنچا اور حرکت قلب بند ہو گئی اور جائے نماز پر ہی گرے اور داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمارے پیارے بھائی کی کامل مغفرت فرمائیں اور سب لواحقین دوست احباب کو صبر جمیل اور اسکے بدلے اجر عظیم عطا فرمائیں آمین.

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں