بڑے نتائج والی چھوٹی چھوٹی باتیں

شاہد جمیل منہاس/ایک عادل بادشاہ کسی زمانے میں رعایا سے بہت پیار کرتا تھا۔ اور وہ اپنا بھیس بدل کر گشت کیا کرتا تھا۔ تا کہ معلوم کر سکے کہ اسکی رعایا پر کیا گزر رہی ہے۔ ایک را ت وہ گشت پر تھا کہ چند درویشوں کو دیکھا جو سردی سے کانپ رہے تھے اور بادشاہ چھپ کر اُنکی باتیں سننے لگا۔ ایک درویش دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ اگر یومِ حشر اللہ نے ان بادشاہوں کو بخش دیا تو میں قبر سے باہر آنے سے انکار کر دوں گا۔ ارے بھائی یہ کونسا انصاف ہے کہ ایک بادشاہ اس عارضی دُنیا میں بھی مزے کرے اور ابدی زندگی میں بھی جنت میں خوش و خرم رہے۔ تم سب سُن لو اگر بادشاہ جنّت کے دروازے تک بھی آیا تو میں جوتے مار مار کر اُس کا بُرا حال کر دوںگا۔ بادشاہ نے جب اپنے بارے میںیہ گفتگو سُنی تو وہاں سے بھاگ کہ واپس آ گیا۔

صبح شاہی کارندے بھیج کہ اُن درویشوں کو دربار میں طلب کر لیا۔ انتہائی احترام دیا اور انعام و اکرام کی بارش کر دی۔ درویش حیران تھے اس فیاضی پر۔ ایک درویش نے ڈرتے ہوئے پوچھا کہ بادشاہ سلامت آپ کا اقبال بلند ہو آپ بتانا پسند کریں گے کہ ہمیں ان انعامات سے کیوں نوازا جا رہا ہے؟ بادشاہ مسکرایا اوربولا ” اے مرد ِ درویش میں وہ طاقتور اور ظالم بادشاہ نہیں جو غریبوں اور کمزوروں کو حقیر جانے اور ان پر ظلم کرے۔ میں اس دُنیا میں تم سب سے صلح کرنا چاہتا ہوں تا کہ بروز قیامت اگر مالک مجھے جنّت کی بشارت دیتا ہے تو جب میں جنت کی دیوار کے پاس آو¿ں تو تم سب خوشی خوشی میرا استقبال کرو۔ کیا میں اب یہ یقین کر لوں کہ تم سب مجھ پر بہشت کا دروازہ بند کروانے کی آرزو نہیں کرو گے؟۔ دراصل اس حکایت میں شیخ سعدی نے امراءاور سلاطین کو یہ درس دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ غرباء ، مساکین اورناداروں کے کام آئیں کہ یہ دُنیا اور یہ دولت پانی کے بُلبُلے کی طرح ہے جو چند ساعتوں کی مار ہےں۔ شیطان کی ہر ممکن یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ امرا کے کانوں میں یہ بات ڈالتا رہے

کہ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ ان کی اپنی محنت کا ثمر ہے۔ حالانکہ ربّ کی مرضی کے بغیر کوئی محنت تک نہیں کر سکتا ۔ آج کے دور میں ڈینگی اور کرونا کی وبا نے اگلے دن کے بڑے بڑے منصوبے بنانے والوں کی تمام افکار کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ۔ بے شمار افراد جن میں نیک و صالح اور بدکاروں تک تمام افراد موجود تھے مگر آج وہ ہم میں موجود نہیں۔ اکتوبر 2005 کا زلزلہ آیا تو جو لوگ اپنے اپنے گھروں میں پجارو اور بڑی بڑی لکثری گاڑیاں کھڑی کر کے سوئے اگلے دن ملک پاکستان کے غراباءنے اپنے استعمال شدہ کپڑے ، کمبل اور رضائیاں ان کو دیں اور وہ اُنہوں نے خوشی سے استعمال کیں۔ میرے ربّ کے قوانین اور ضوابط بھی بڑے نرالے ہیں۔ وہ ربّ انصاف کرنے والا ربّ ہے کہ کسی کی ذرّہ برابرنیکی کا اجر دے کر ہی رہتا ہے۔ ہاں مگر بُرائی کی سزا دینے سے قبل اس کا انتظار ضرور کرتا ہے کہ شائد بُرائی چھوڑ کر میری طرف واپس پلٹ آئے۔ وہ مالک اچھائی کا بدلہ فوراََ اور بُرائی کا بدلہ انتظار کر کے دیتا ہے۔ میرا جسم میری مرضی والو ں کو انتہائی چھوٹ دینے والی ذات اللہ کی ذات ہے جو بہت معاف کرنے والی ذات ہے مگر بعض اوقات کسی گُنہگار انسان کو جب حد سے زیادہ اسی دُنیا میں چھوٹ ملنے لگے تو وہ جان لے کہ وہ ربّ اُس کو اس دُنیا میں سزا نہیں دینا چاہتا۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس دُنیا کی سزا کے بدلے ایسے غلیظ افراد کو جنّت کی بشارت سے دور رکھا جائے۔ لہذا کم گُنہگار آدمی جب گناہ کرتا ہے تو ربّ کی ذات اگلے ہی دن اُسکو سزا دے دیا کرتی ہے۔ کیونکہ وہ ذات اُسے اس دُنیامیںسزا دے کر آزاد کرنا چاہتی ہے۔
اگر ہم میں سے کوئی گناہ کرے تو اُسے ربّ کی طرف سے کوئی پریشانی تکلیف یا اُلجھن تک نہ ہو تو وہ یہ یقین کرلے کہ اسکی رسی دراز کر دی گئی ہے۔ اب اس کے دل پر مہرلگ گئی ہے۔ اب وہ جو مرضی کرتا پھرے اُسے اس دُنیا کے ایک گناہ کے بدلے ایک سزا نہیں ملے گی۔ بلکہ اب اُسے اگلی دُنیا میںاس دُنیا کے ایک گناہ کے بدلے سترگناہ یا ستر ہزار گناہ سزا ملے گی۔ اس دُنیا کا دستور بھی آپ نے دیکھا ہو گا کہ اگر کسی انسان کا بیٹا سگریٹ پیتا ہو اباپ کی نظروں میں آ جائے تو باپ اُسے مارتا پیٹتا ہے تا کہ وہ اس جرم سے دور رہے اورآنے والی زندگی میں کامیاب رہے۔ اگر بیٹا اس سزا کے بدلے مزید یہ حرکت کرتے ہوئے پایا جائے تو باپ دو چار بار اُسے منع کرے گا

مگر آخر تنگ آ کر بیٹے کو ایسی حرکت کرتے ہوئے دیکھ کر خوداپنا راستہ بدل لیتا ہے۔ مگر باپ کا کرب دن بدن بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ اپنے والدین کی نظروں میں گر جاتاہے۔ یاد رہے کہ انسان لاکھوں کروڑوں میل کی اونچائی سے گر کرتو زندہ بچ سکتا ہے مگر نظروں سے گر ا ہوا انسان زندہ رہ کر بھی مرا ہوا ہی ہوتا ہے۔ میرے اور آپکے ارد گرد ایسے ہزاروں افراد موجود ہیں جو بظاہر زندہ ہیں مگر حقیقت میں وہ مر چکے ہیں کیونکہ
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مُردہ دل کیاخاک جیا کرتے ہیں
آج اس ملک کے بادشاہوں کی زندگیاں پوری دُنیا کے سامنے ہیں۔ چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہی کیوں نہ ہوں۔ آج کے دور میں یہ جو بظاہر جمہوریت نظر آ رہی ہے وہ در اصل قید خانہ ہے اور اس قید خانے میں پورا پاکستان قید ہو کر رہ گیاہے۔ ماسوائے چند انگلیوں پر گنے جانے والے حکمرانوں کے کہ جن کے دل میں خوف خدا موجود تھااور وہ عزت کے ساتھ اس دُنیا سے چل دیئے۔ پچھلے کئی عشروں سے اگر کوئی حکمران اخلاقی لحاظ سے بہتر ہے تو اس نے مالی بحران پیدا کر کے جہنم کی آگ اپنے نام کر لی۔ اور اگر کوئی مالی لحاظ سے بدعنوان نہیں رہا تو اُس نے اخلاقی لحاظ سے وہ حرکات و سکنات کیںکہ جان کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ آج اس ملک کے دروبام کے حالات کو دیکھ کربظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک دن بدن غربت و افلاس کی چکی میں اس لیئے پس رہا ہے کہ ہماری حکمران جماعت مالی یا اخلاقی لحاظ سے بدعنوان پائی گئی ہے ماسوائے ایک یا دو دردِ دل رکھنے والے حکمرانوں کے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں