columns 157

بڑی معیشتیں اور پاکستان

امریکا میں سرمایہ کاری اور مالیا تی امورکے حوالے سے مشاور تی خدمات سر انجام دینے والی ایک کمپنی فرانوٹمنس نے خبردار کیا ہے کہ بڑھتے قرضوں کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام بڑی معیشتیں اپنی مالی موت کی طرف بڑھ رہی ہیں کمپنی کے سربراہ نے امریکی ٹی وی کو ددیے گئے انٹر ویو میں پیش گوئی کی ہے کہ آنے والی دہائی قرضہ کی دہائی ہے قرض لینے کی بحران نے ترقی یافتہ ممالک کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے

اس ؓبحران کا انجام بہت بڑا ہو گا گزشتہ ایک دہائی کے دوران میں ایک ہزارارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے صورتحال گزشتہ 40برسوں میں عالمی شرح سود میں سب سے زیادہ سامنے ہونے پر آئی۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اور جاپان جیسے ممالک میں قرضوں میں اضافہ کی شرح بے قابو ہو چکی ہے اور عالمی قرضہ جات میں انہی ممالک کا قرضہ 80فیصد سے ز ائد ہو گیا ہے ابھر تی ہوئی مارکیٹوں کو دیکھیں تو چین،بھارت اور برازیل میں سب سے زیادہ قرضے لیے ہیں اور خدشہ اس بات کا ہے کہ اپنے قرضوں کے مسائل حل کرنے والے کچھ بڑے ممالک سُستنمو کا شکار ہو کراور اپنی مالیاتی موت مر جائیں گے۔ جبکہ کچھ ابھرئی معیشتیں دیوالیہ بھی ہو سکتی ہیں

۔بڑی خبر یہ ہے کہ دنیا کی دو بڑی معیشتیں جاپان اور برطانیہ 2023کے دہرے نصف میں سرد بازی کا شکار ہو گئی ہیں۔ دوسری طرف جاپان کی معیشت غیر متوقع طور گراوٹ کا شکار ہو کراس کی جی ڈی پی گزشتہ سال کی آخری ساماہی میں 3.3 فی صد تک سکڑگئی ہیں۔ جبکہ بر طانوی معیشت میں گراوٹ 2024میں آنے والی ہے۔ جاپان بھی اپنی عالمی معیشتوں میں اپنے تیسرے نمبر کی پوزیشن کھو چکا ہے گزشتہ اکتوبر میں آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی تھی کہ اب جرمنی برطانیہ کی جگہ تیسری بڑی عالمی معیشت بن جائے گاتازہ ترین اعدادو شمار کہ مطابق جاپانی معیشت کی قدر 42ٹریلین ڈالر کے برابر ہے جبکہ اس کے مقابلے میں جرمن معیشت کی قدر 4.4 ٹریلین ڈالر ہے اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ جاپانی کرنسی ڈالرکے مقابلے میں 9فیصد تک گر گئی ہیں برطانیہ کے لیے بُرا وقت شروع ہو نے والا ہے گزشتہ سال اس کی جی ڈی پی 0.3فیصد رہ گئی ہے

اور گزشتہ سال ہی جولائی سے ستمبرکے درمیان اس کی معیشت 0.1فیصد سکڑ گئی جبکہ اسٹرلنگ ڈالر اور یورو کے مقابلے میں کمزور رہا کنزرویٹوپارٹی کے پچھلے 70سالوں سے زیادہ تر اقتدار میں رہی ہے۔ اور معاشی معاملات میں عوام لیبر پارٹی پر زیادہ اعتماد کر رہے ہیں دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی عوام کا پہلی مرتبہ معیار زندگی گرا ہے اب پاکستان کی بات کرتے ہیں جب دنیا کی اتنی بڑ ی معیشتیں اتنے بڑے بحران سے گزر چکی ہیں تو اس کا اثر پاکستان پڑ بھی پڑے گا۔نئی حکومت بہت بڑے معاشی بحران کا سامنا کرنے جا رہی ہے عوام پر مذید ٹیکسو ں کی بھر مار ہو گی اور عوام کی رہی سہی برداشت بھی جواب دے جائے گی پرائیوٹائزیشن سے بہت بڑی عوام سڑ کوں پر نکل آئے گی اور مہنگائی ہو گی جو عوام نے کبھی دیکھی اور نہ سنی ہو گی

۔عوام اگلے تین سال کسی بھی ریلیف کو بھول جائے مسلسل بڑھتی ہوئی بجلی کی قیمتیں عوام کی چیخیں نکال دے گی اتنے زیادہ بجلی کے بل آئیں گے کہ عوام پنکھیلگانا بھول جائے گی ائیر کنڈیشنز کا عام آدمی کو سوچنا بھی نہیں چاہیے مہنگی بجلی اور گیس کی وجہ سے صنعتکار فیکٹریاں بند کرنے پرمجبورہو جائیں گے۔ اسی طرح مہنگائی غربت اور بے روزگاری میں بھی مزید اضافہ ہو گا۔سیاستدانوں کی طرف سے انتخابات میں کیے جانے والے وعدے سبزباغ ہی رہے گے انتخابی نتائج کے پیش نظر مستقبل میں ممکنہ سیاسی بحران کے نتیجے میں ڈیفالٹ کا خطرہ پھر منڈلا سکتا ہے۔ یاد رکھئے کے آئندہ جون تک پاکستان کو 28ارب ڈالر کی ادائیگی کرنا

ہو گی عالمی بنک نے پاکستان پرغیر ملکی قرضہ جون 2024تک 825کھرب روپے تک پہنچ جانے کا تحمینہ لگایا گیا اور اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح بڑھ کر بیالیس فی صد تک پہنچ گئی ہے اس کے مطابق پاکستان میں غربت کے شکار افراد کی تعداد بارہ کروڑ سٹر سٹھ لاکھ ہے اندازہ کریں کہ یہ تعداد تو پاکستان کی نصف آبادی سے بھی زائد ہے ایک کروڑ پچیس لاکھ سے زائد افراد دبے روزگار ی کا شکار ہیں اب پاکستانمیں عام انتخابات ہوچکے ہیں عوام اپنا فیصلہ سنا چکے ہیں۔ چند برسوں میں سیاست کا انداز تبدیل کر دیا ہے

جمہوریت کا نقاب پہن کر فسطائیت پرست میڈیا کے مختلف ٹولز استعمال کر کے ملک میں بے یقینی اور نا امیدی پیدا کی جارہی ہے ایک سوچے سمجھیمنصوبے کے تحت ریاستی ڈھا نچے کو ڈس کر یڈ ٹ کر نے کے لئے سوشل میڈیا ٹولز کے ذریعے پر اپیگنڈا کیا جارہا ہے اور کچھ پاکستانی باشندے غیر ممالک میں بیٹھ کر اپنے ہی ملک کی سا لمیت کے خلا ف کام کر رہے ہیں حکومت کو ایسے ڈبل شہریت والے پاکستانیوں کے بارے میں قانون سازی کر نی چاہیے ادھر ملک کی سیاست میں اس سے بھی زیادہ خطرناک رجحان نے فروٖ غ پایا ہے

وہ یہ ہے کہ مخالف سیاسی شخصیات پر بے بنیاد الزامات عائد کئے جائیں حالیہ الیکشن اس کی مثال ہے کہ ہر پارٹی اپنی مرضی کے نتائج چاہتی ہے اعلیٰ عدلیہ کا وقت ٖائع کرنے کے لئے درخواستیں دائر کرنے کا رجحان بڑھا ہے اور ملک کے نامور وکلا اس رجحان کیحوصلہ افزائی کر رہے ہیں ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت عوام میں یہ سوچ پیدا کر دی گئی ہے کہ کسی کی جیت کو تسلیم نہیں کر نا کسی کی فتح کو ماننانہیں ہے کسی کو اہمیت نہیں دینی اور جو انتخابی نتیجہ مرضی کا نہیں ہے اُسے کسی صورت قبول نہیں کر نا جھوٹ بولنا ہے

اور دبا کر بولنا ہے اور بولتے ہی چلے جانا ہے اپنی غلطی تسلیم نہیں کرنی اور دوسروں کی خامی کو چھوڑنا نہیں ہر حال میں مخالف کو اس ملک کے لئے تباہ کن ثابت کر نا ہے اپنی ایک لگائی اینٹ کو تاج محل ثابت کر ناہے اور مخالف حکومت کے تعمیر کر دہ محل کو قبر ستان بنا کر پیش کر نا ہے کیا یہی جمہوریت ہے اور کیا جمہوریت صرف انتخابات جیتنے کا نام ہے ملک کو اندرونی اور بیرونی طور پر جن چیلنجز کا سامنا ہے اس سے نبردآزما ہونے کے لئے جمہوریت اور پارلیمنٹ کو اپنا بالادست کر دار سنبھا لنا ہوگا اورپھر تب ہی جا کر ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور معاشی مسائل حل ہوں گے ملککو بحران در بحران مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے اور ملککے پچیس کروڑ عوام بیچارگی کی تصویر بنے ہوئے ہیں اس کے لئے تما م سیاسی قوتوں کو پاکستان کے مسائل کے حل کے لئے ایک ہونا ہوگا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں