بڑھتی ہوئی تعمیرات سے آلودگی میں اضافہ

عبدالجبار چوہدری/پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں غیر قانونی تعمیرات اور سرکاری زمینوں پر بنے رہائشی اورکمرشل مکانات کو ختم کرنے پر کام جاری ہے اس سے آبادی کے تناسب سے رہائشی علاقوں اور سہولیات میں شدیدکمی ہو جائے گی جس کی وجہ اس شہر سے دوسرے شہروں کی طرف نقل مکانی لازمی ہو جائے گی کراچی شہر کے لوگ اپنے مخصوص طرز زندگی (لائف سٹائل ) کی وجہ سے دیہات یا قصبہ جاتمیں رہائش نہیں رکھ سکتے بلکہ رہائش اور کاروبار کے لیے بڑے شہر کا انتخاب ان کی ترجیح ہو گا آباد ی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک میں پاکستان کا شمار ہوتا ہے بڑے شہروں کا پھیلاو اس قدر ہو چکا ہے کہ بنیادی ضروریات بجلی ‘ پانی اور گیس مہیا نہیں ہیں ‘ زرعی زمینوں پر ہاوسنگ سوسائیٹیاں بنائی جارہی ہیں جنگلات ختم کیے جارہے ہیں درختوں کی کٹائی اور زمینوں کو ہموار کرنے سے قدرتی جڑی بوٹیاں ‘ صاف چشمے ‘جنگل ‘ جانور ختم اور نتیجتاً فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے ان کو روکنے کی کوئی منصوبہ بندی سرکاری سطح پر نظر نہیں آرہی ہے بلکہ تعمیراتی شعبوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے کراچی جیسے شہر کے مسائل سے سیکھنا چاہیے اور ملک کے بڑے شہروں کو ان مسائل سے بچانے کے لیے ابھی سے پیش بندی ضروری ہے اسلام آباد کی مثال لے لیں شائید ہی کوئی جگہ رہ گئی ہو جس پر تعمیرات نہ ہو رہی ہوں آپ تحصیل راولپنڈی کا علاقہ رنگ روڈ کی تعمیر کی وجہ سے بری طرح اس کی لپیٹ میں آنے والا ہے زمینوں کا قابل کاشف رہنا بہت ضروری ہے زرعی رقبہ جات کی کمی خوراک کے بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو گی زمین جب تک بنیادی مالک کے پاس رہتی ہے تو وہ ہر طرح سے اس کی حفاظت کرتا ہے جب زمین فروخت ہونا شروع ہوتی ہے تو اس کو نفع بخش بنانے کی خاطر اس کی شکست و ریخت کا عمل شروع ہو جاتا ہے ہمارے آباو اجداد غیر پیداواری زمین پر آباد ہوتے تھے اب وہاں سڑکیں پہنچ چکی ہیں وزیراعظم عمران خان کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر پر اسی لیے زور دے رہے ہیں کہ قیمتی رقبہ جات دست برد سے محفوظ رہیں پوٹھوہار کی زمین پھلدار درختوں کےلئے نہایت موزوں ہے چونکہ زمینوں کی حفاظت کے لیے باڑ نہیں لگائی جا سکتی اس لیے مختلف حصو ں میں تقسیم زمین کا اس مقصد کے لیے استعمال مشکل ہے جن لوگوں کی زمین ایک جگہ پر ہو وہ پھلدار درخت لگائیں اور پھل حاصل کرنے کی کوشش کریں سی پیک کی وجہ سے ہمارے ملک کا مغربی حصہ بہت بڑی تبدیلی کی زد میں آئے گا صنعتی علاقوں کے قیام سے ترقی ہو گی مقامی لوگوں کو روزگار ملے گا لوگ ان علاقوں کی طرف نقل مکانی کریں گے حکومت پنجاب اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے چھوٹے انتظامی حصے بنا رہی ہے بہاولپور اور ملتان کے صوبائی انتظامی سیکرٹریٹ اسی منصوبے کا حصہ ہیں صنعتی ترقی ہمارے دروزاے پر دستک دے رہی ہے اس کے باوجود لوگ زمینوں کی خریدو فروخت اور مکانات کی دھڑا دھڑ تعمیر کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر ہماری ترجیحات نہ بدلیں تو مغلیہ خاندان کے قلعے ہمیں بہت کچھ بتا رہے ہیں ہر شخص کوئی مہارت یعنی ہنر سیکھنے کی کوشش کرے اب وقت آچکا کہ دو وقت کی روٹی کی خاطر ملک کے اندر ایک شہر سے دوسرے شہر ہجرت کرنا پڑے گی سرکاری اداروں میں نوکریوں کی قلت ،مقامی طور پر روزگا میں کمی اور مصنوعی اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہمیں مجبور کر رہا ہے کہ ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوں دیگر ممالک آبا دی کے کارآمد استعما ل کے لیے نئے نئے خیالات پر عمل کر رہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں اشرافیہ کے درمیان کھینچا تانی ختم نہیں ہو رہی ہے جبکہ لوگوں کا سمندر روزگار کے لیے ان کے دروازوںپر دستک دے رہا ہے اگر ہماری ترجیحات نہ بدلیں اور اسی طرح ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو شائید لوگ دوبارہ خط غربت سے نیچے چلے جائیں حکومت پنجاب نے نو صنعتی زون کے قیام کا اعلان کر دیا ہے اور سترہ لاکھ افرادکے نئے روزگا ر کے مواقع پیدا ہونے کا دعویٰ کیا ہے کیا ہم اس ہدف کو حاصل کرنے کا عزم رکھتے ہیں بہرحال یہ کام مشکلات سے بھر پور ہے خطہ پوٹھوار کے لوگوں کی ترجیح ملازمت یا پھر بیرون ملک جانا ہی رہے گی ضلع راولپنڈی کے رہائشیوں کے لیے روزگار کا حصول چیلنج ہی رہے گا۔راولپنڈی کے نواحی دیہات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں ان دیہی زمینوں پر ہاوسنگ سوسائیٹیاں بن رہی ہیں یا پھر دوسرے اضلاع سے لوگ زمینیں خرید کر مکانات بنا رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں