بچے چار اچھے/عبد الجبار چوہدری

حال ہی میں حکومت بلوچستان نے بہبود آبادی کے ایک پرگرام کا اعلان کیا ہے جس کے تحت چار بچوں کی پیدائش کی ترغیب ، حوصلہ افزائی اور زچہ و بچہ کی صحت اور زندگی کی حفاظت کے لیے خوصی اقدامات کرنا

مقصود ہے اس بات کا علم تو اکثر لوگوں کو ہے کہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑ ااور آبادی کے لحاظ سے سب سے کم حثیت رکھتا ہے موجودہ صدی کے آغاز میں حکومت پاکستان نے بلوچستان پر خصوصی توجہ دینا شروع کی اور آغاز حقوق بلوچستان پروگرام کا آغاز ہوااور این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے بھی فنڈز کا وافر حصہ بلوچستا ن کے لیے مقرر ہوا بلوچستان پر یہ خصوصی توجہ ہماری ملک دشمن قوتوں کو ناگوار گزری اور بعض بین الاقوامی ایجنٹوں کے تعاون سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا مسخ شدہ لاشوں کا ملنا عام ہوا مسلکی ٹارگٹ کلنگ کی گئی اور ایک دن میں کئی کئی جانیں اس بھیانک سازش کی نذر ہوئیں بلوچستان میں 80ء کی دہائی سے دوسرے صوبوں مثلا پنجاب اور خیبر پختونخواہ سے پڑھے لکھے پروفیسر ،ڈاکٹر ،اساتذہ اور کاروباری شخصیات نے یہاں مستقل سکونت اختیا رکی بیوروکریسی میں یہاں دوسری صوبوں کی تعینات کی جاتی رہی مقامی لوگوں کو اعلی تعلیم ،بنیادی زندگی کی سہولتوں اور قومی دھارے میں لانے والے عوامل تک رسائی نہ ملنے کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوا

اور یہ خلا مقامی لوگوں کے احساس محرومی اور اس سے بڑھ کر غلامی کا موجب بنا احساس محرومی کو استعمال کرنے والوں نے اس موقع سے خوب فائدہ اٹھایا اور پنجابی لوگوں کی وہ درگت بنائی کہ یہ لوگ اپنی جائیدادیں ،مکانات، کاروبار، دکانیں ، نوکریاں سب کچھ چھوڑ کر بمشکل اپنی اور اپنی اولادوں کی جانیں بچا کر واپس پنجاب آگئے سڑکوں کے جال بچھانے ،تعلیمی اداروں کے قیام اور مقامی لوگوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے پاک فوج نے کلیدی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیاچمن سے گوادر تک اور ایران کے بارڈر سے لے کر جیکب آباد تک راستوں کو محفوظ بنانے اور مقامی آبادیوں کو سہولتیں پہنچانے کے لیے عملی کام کر رہی ہے

اب تو بلوچستان کا سفر کرنے کی جسارت بھی بہت کم لوگ کر رہے ہیں میڈیا کی رسائی وہاں تک نہیں ہے بڑے شہروں میں بیٹھے لوگوں کی رسائی جب تک وہاں نہ ہوگی اس وقت تک بلوچستان کے گلی کوچے کیسے ترقی کر سکتے ہیں ان حالات کے پیش نظر حکومت بلوچستان نے اپنی آبادی کو بڑھانے کیلیے’’بچے چار اچھے ‘‘پروگرام کا آغاز کیا ہے جب آبادی بڑھے گی تووسائل بھی بڑھیں گے اور مقامی سطح سے لوگ دوسر ے صوبوں کا رخ کریں گے جب وہاں کے لوگوں کو زندگی کی سہولیات سے لطف اندوز ہوتا دیکھیں گے

تو پھر انہی سہولیات کے حصول کے لیے وہ بلوچستان میں بھی مطالبات کریں گے جتنی آبادی زیادہ ہوگی اتنی صلاحیتوں واے لوگ بھی پیدا ہوں گے افرادی قوت کی زیادتی ، انسانی ترقی میں کردار ادا کرتی ہے بلوچستان جیسے صوبے میں جہاں قدرتی وسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کی دریافت اور ترقی کے لیے مرکزی حکومت اس انتظار میں ہے کہ کب وہاں کے حالات سازگار ہوں اور مقامی آبادی اس کے لیے تیار ہوتو وہاں کام شروع کیا جاسکے مقامی آبادی کے تعاون اور شمولیت کے بغیر وہاں کے وسائل کی ترقی کے لیے حکومت کچھ بھی نہیں کرسکتی جب آبادی زیادہ ہوگی تو روزگار کی ضرورت بھی زیادہ ہوگی اور آئندہ دس سال کے بعد یہ بڑھتی آبادی خود دعوت دے گی

کہ ان کے روزگار کے لیے فیکٹریاں لگائی جائیں ، کارخانے تیار کیے جائیں اور یہاں ہسپتال ، کالج ، یونیورسٹیاں بنائی جائیں اور مقامی لوگ ہی ان کی حفاظت کریں گیاور انہیں چلائیں گے یہاں ہی سے وہ لوگ پیدا ہوں گے جو قومی دھارے کی بات کریں گے حب الوطنی کا پرچار کریں گے اور سب سے بڑھ کر بلوچستان کا نام روشن کریں گے ہم اس سے قبل بین الا قوامی سازش کا شکار ہو چکے ہیں جب ہماری تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے آگے بن باندھنے کے لیے ’’بچے دو اچھے‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے پنجاب کی آبادی کا تناسب بگاڑا اور اب یہ پروگرام ماؤں کی صحت و تندرستی میں تبدیل ہو چکا ہے اور کئی گھرانے برباد کر کے اب ہوش میں آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہماری آبادی کی زیادتی سے عالم کفر خوف زدہ ہے کہیں یہ لوگ تاریخ دھرانے کے لیے پھر ان ترقی یافتہ ملکوں کا رخ کر لیں گے

اور حقیقت یہی ہے کہ برصغیر اور افریقہ کی دولت اور سونے کے ذخائر لوٹ کریں آج کے ترقی یافتہ ممالک اتنے ترقی یافتہ بنے ہیں اور اب گزشتہ تین دہائیوں سے خلیج سے تیل کو لوٹ لوٹ کراپنی ریفائنریاں بھر رہے ہیں اور ڈکار بھی نہیں مار رہے ان کے ٹینک ، گاڑیاں ، اور جہاز خراٹے بھر رہے ہیں بغیر کچھ ادا کئے تیل خلیج سے لوٹ کر جارہے ہیں اس لیے خلیج ہی آج مقامی لوگ آپس میں لڑ رہے

ہیں اور ہمارے ازلی دشمن اپنی جھوٹی طاقت کے بل بوتے پر دوہرے وار سے ختم کر رہے ہیں انہوں نے تو فطرت کے قوانیں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف آبادی کا تناسب خراب کر رکھا ہے بلکہ معاشرتی اور خاندانی وقار اور اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے ان کے ملک جرائم سے اٹے ہوئے ہیں دنیا بھر میں انہوں نے فساد پھیلا رکھا ہے کہ مسلمان امن سے نہ رہ سکیں کیونکہ امن ان کو یہ سوچنے پر مجبور کرے گا کہ ہم ترقی کیسے کریں اور ان کے مقابلے کے لیے کیا کریں مذہب اور دین کی روح پر حقیقی عمل کے لیے امن اولین شرط ہے بات بلوچستان سے چلی اور بہت دور نکل گئی در حقیقت بلوچستان میں ترقی اور بد امنی کا نہ ہونا بھی انہی بین الاقوامی سازشوں کا ہی شاخسانہ ہے جب تک ہماری حکومتیں اس کا اداراک کر کے اس کے سد باب کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کرسکتیں اس وقت تک بد امنی اور بے یقینی کی کیفیت یوں ہی بر قرار رہے گی دیر آئے درست آئے کے مصدآق بلوچستان حکومت کا یہ اعلان قابل تحسین ہے اور اس سے وہاں ضرور خوشحالی آئے گی۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں