کالم

بچوں کی اخلاقی تربیت اور ہماری ذمہ داریاں

شبیر احمد ڈار
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا (اقبال)
کوئی بھی معاشرہ یا قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہاں اخلاقی اقدار کو مثبت فروغ نہ دیا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ہر شعبے میں زوال کا شکار ہے جس کی بنیادی وجہ اخلاقی اقدار کی پستی ہے۔ ہماری ریاست میں جہاں دیگر مسائل بڑھ رہے ہیں تو وہیں ایک سنجیدہ مسئلہ بچوں کی اخلاقی اقدار میں کمی کا ہے۔ ہمارا گھر، معاشرہ، اسکول، مدرسہ کہیں بھی کوئی ایسا منظم نظام دکھائی نہیں دیتا جہاں بچوں کو دیکھ کر یہ گماں کیا جا سکے کہ ہمارا مستقبل مثبت ہاتھوں میں ہے۔ وہ بچہ جسے اپنے آپ کا علم نہیں ہوتا سب سے پہلے ناشائستہ الفاظ سیکھتا ہے جو وہ غصے کے عالم میں ادا کرتا ہے۔

اس کی وجہ ماوں کا بچوں سے غیر مہذب انداز میں کسی چیز سے منع کرنا ہے۔ غصے کے وقت جہاں مار پیٹ سے دریغ نہیں کیا جاتا وہیں ناشائستہ الفاظ کا بھی بےدریغ ادا کرنا ہے۔ بچوں نے ایک دوسرے کے اسم مبارک کو خوب صورتی کے ساتھ ادا کرنے کی بجائے مختلف غیر مہذب القابات رکھے ہوتے ہیں۔ بچوں کو صفائی کے بنیادی اصول سکھانے کی بہ جائے ہم ان کے سامنے غیرمہذب شہری کی مثال بنتے ہیں۔ ایک وقت تھا علمی درس گاہوں میں اساتذہ کو قلبی اور عملی طور پر قابل عزت سمجھاجاتا تھامگر آج محض رسمی ادب دکھائی دیتا ہے ۔ بچوں نے اساتذہ کے بھی برے القابات رکھے ہوتے ہیں۔ گالم گلوچ سے لے کر جھوٹ تک ہر معاشرتی برائی بچوں کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ آج کا بچہ اپنے خاندان کے دوسرے بچوں سے چھپ کر کھاتا پیتا ہے کہ کہیں اس کے عزیز و اقارب کے بچے اس کے رزق کو کم نہ کر دیں جب کہ ہماری تربیت میں اور روایات میں مل ییٹھ کر کھانا پینا شامل تھا ۔

محلے کی لڑائیوں اوراحتجاجوں میں بھی یہ بچے نمایاں مقام پر رہتے جہاں سے باآسانی غیر شائستہ گفتگو سنتے جس میں دوسرے کی تذلیل کی جاتی ہے۔ اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ آخر یہ سب بدلے گا کیسے؟ کیا فرد واحد کی طاقت یا کوئی ریاستی ادارہ؟؟؟ سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ یہ بچے ہمارے گھر، معاشرے اور قوم کا مستقبل ہیں جیسی تربیت ان کی ہوگی ویسی ہی نیک نامی یا بد نامی ہمارا مقدر بنے گی۔ ماں کی گود سے لے کر علمی درس گاہوں اور معاشرے میں ملاپ تک ہر شے کو ہم نے اخلاقی لحاظ سے پست نہیں رکھنا۔ آج ہم جو بچوں کو سکھائیں گے کل کو وہی سبق ہماری آنکھوں کے سامنے بےبسی کے عالم میں دہرایا جائے گا۔

ہمیں نصاب میں محض رسمی تعلیم نہیں دینی بلکہ اخلاقیات کو اول ترجیح دینی ہے۔ بچوں کو اخوت و بھائی چارہ سمیت بھلائی کا درس دینا ہے۔ انھیں ہر قسم کے تعصب اور فرقہ پرستی سے دور رکھنا ہے۔ ہمیں بچوں کو فرقوں میں تقسیم کرنے کی بہ جائے انھیں یک جان کرنا ہو گا۔ اپنے بچوں کے اسم مبارک کو سردار، راجہ، مہاراجہ کی بہ جائے محمد سے لکھیں اور پکاریں۔ بچوں کو بتائیں کہ کوئی شعبہ یا پیشہ اور اس سے منسلک افراد برے نہیں ہوتے جب تک کہ اس میں شامل افراد اس پیشے سے بددیانتی نہ کریں۔ بچوں کو ادب کرنا سکھائیں چاہے گھر ہو یا معاشرہ۔ آج کا ذمہ دار اور بااخلاق بچہ ہی ہمارے روشن مستقبل کی نوید ہے۔ آئیں مل کر اپنے بہتر مستقبل کو نیک نیتی سے سنوارتے ہیں۔” اب نہیں تو پھر کبھی نہیں۔۔“

بہرام خان

Recent Posts

شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین جہلم سے تعلق رکھنا والا ایک اور نوجوان وطن پر قربان

جہلم کا بہادر بیٹا علی عمران مادرِ وطن پر قربان ہو گیاایس ایس جی کمانڈو…

1 hour ago

چوری کی وردات

گوجرخان تھانہ گوجرخان کے باہر کھڑا کچہری کلرک عمان واجد کا قیمتی 125 موٹر سائیکل…

3 hours ago

گردہ ٹرانسپلاٹ کیس میں گرفتاری

بحریہ ٹاؤن گردہ ٹرانسپلانٹ کیس میں ڈاکٹر منظور حسین کی ھائی کورٹ سے ضمانت ریجیکٹوسیم…

3 hours ago

کلر سیداں پولیس نے جعل سازی اور فراڈ کے الزام میں دو افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا

کلر سیداں (یاسر ملک) تھانہ کلر سیداں پولیس نے جعل سازی اور فراڈ کے الزام…

4 hours ago

کلر سیداں پولیس کی بروقت کارروائی دو افراد گرفتار  22 لاکھ روپے مالیت کی گاڑی بازیاب

کلر سیداں (یاسر ملک) کلر سیداں پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے دو افراد کو…

4 hours ago

ترقی یافتہ ممالک اپنے وسیع تر دریاؤں کو قابو میں رکھ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟

راجہ طاہر محموددنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بڑی بڑی تہذیبیں دریاؤں کے کنارے آباد…

4 hours ago