بچوں کا جنسی استحصال قانون کہاں ہے

آصف شاہ

قانون سے کوئی بالاتر نہیں یہ نعرہ پاکستانی  عوام ہر دور میں سنتے آئے ہیں وطن میں ہرجرم کا قانون موجود ہے لیکن بدقسمتی سے اس کو لاگو نہ کیا جاسکا ہے یہاں پر ہر چیز کے دو معیار ہیں غریب کے لیے اور قانون جبکہ امیر وں کے لیے قانون ان کے گھر کی لونڈی سے زیادہ حثیت نہیں رکھتا ہے،وطن عزیز میں ان دنوں بچوں اور بچیوں سے زیادتی، جنسی تشدد، ریپ اور قتل کے واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں۔ 97٪ فیصد مسلمان آبادی والے ملک میں بچے بچیاں جنسی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں۔ عوام نعروں، جب کہ حکمران بھاشن دینے اور خواب دکھانے میں مصروف عمل ہیں۔ ادارے شائنگ اسٹار بننے کی دوڑ میں ہیں۔ اور میڈیا ریٹنگ کے چکر میں الجھا پڑا ہے ایک غیرسرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں ہر روز9سے 11 بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔گزشتہ سالوں کی ایک رپورٹس پر اگر نظر ڈالیں تو، تناسب کے اعتبار سے زیادہ تر واقعات دیہی علاقوں میں پیش آئے۔قصور میں زینب کے واقع نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھالیکن اس واقع کے بعد ہم نے حسب راوئیت شور واویلاکیا اور پھر خاموش ہوگے ہیں یہ بات بجا ہے کہ ہمارے ہاں اس کی سزا سرِعام پھانسی دینا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب سیات دان چند گھنٹوں کے اندر اندر اپنے مفاد کا قانون بنا سکتے ہیں تو عوام کے مفاد، بچوں کی حفاظت کے اقدامات، مجرم کے لیے سخت سزا کا قانون کیوں نہیں بن سکتا؟ ساتھ ہی دیگر محرکات پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔اب ایک نظر گزشتہ دنوں کلر سیداں میں ہونے والے ایک اندونہاک واقع پر کہ کلرسیداں کے ایک رہائشی کے ساتھ پیش آیا گوکہ نور زمان پشاور کا رہائشی ہے لیکن گزشتہ تقریبا 19سال سے وہ روٹی روزی کی تلاش میں کلر سیداں سکونت اختیار کیے ہوئے ہے اس کی دونوں بیٹیاں جن کی عمر بالترتیب6اور7سال ہے اور وہ منگال سکول میں پڑھتی تھی سکول واپسی پر ایک بچی کو اسی روڈ پر لاہور کا رہائشی جو کہ موہڑے کاکام کرتا تھا بچی کو بھلا پھسلا کر دکان کے اندر لے گیاشومئی قسمت کہ اسی دوران ان بچیوں کاباپ اور اس کے دو پڑوسی بچیوں کو لینے آئے تو بچی روڈ پر رورہی تھی اور دوسر بچی غائب تھی جس پر بچی کی نشاندہی ہر انہوں نے بچی کو مزکورہ خبیت شخص کے ساتھ حالت برہنہ وہاں سے پکڑ لیا جس پر تھانہ کلر سیداں نے ملزم کے خالف ایف آئی آر درج کر لی یہ واقع اپنے ساتھ بہت ست سوالات چھوڑتا نظر آتا ہے کیا یہ مزکورہ شخص کسی ایسے گینگ کا حصہ ہے جن کا کام ہی بچوں سے زیادتی کرنا اور ان کی ویڈیوز بنانا ہے اس پر پولیس کوروائیتی تفتیش سے ہٹ کر کام کرنا ہوگا کیونکہ ہو سکتا ہے یہ واقع اتفاقی نہ ہو بلکہ اس میں ایک پورا گیمگ ملوث ہو لیکن بدقسمتی ست ہمارے ہاں پولیس کی تفتیش ڈھنگ ٹپاو پالیسی کی جانب گامزن ہوتی ہے اس کیس میں تحریک انصاف کی میڈم نبیلہ انعام کا کردار بھی قابل قدر ہے جنہوں نے اس کیس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بھاگ دوڑ جاری رکھی ہے اور ساتھ ہی وہ خواتین،حضرات وکلاء بھی مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے اس کیس کے لیے بلا معاوضہ اپنی خدمات کو پیش کیا لیکن کچھ سیاہ پوش ایسے بھی تھے جو خود پردے کے پیچھے رہ کراس معاملہ دبانے کی کوششوں میں مصروف تھے ایسے لعنتی کردار معاشرے کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہوتے ہیں،اس کیس کو کلرسیداں کی تاریخ میں اس کیس کا فیصلہ ایسا ہونا چاہیے کہ کوئی بھی شخص ایسا گھناونا فعل کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے،لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا کوئی قانون سرے سے موجود ہی نہیں گزشتہ چند ہفتوں پر نظر ڈالیں تو کتنے کیس ایسے ہیں جن میں بچوں اور بچیوں کا جنسی استحصال کرکے ان کو جان سے مار دیا گیا ہے لیکن تبدیلی کی دعویدار حکومت نے اس کے لیے تاحال ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا جس سے مستقبل قریب میں ایسے واقعات کرنے والوں کو عبرت کا نشانہ بنایا جا سکے اسیے معاملات کو گہری نظر سے دیکھنے والے ماہرین کے مطابق ایسے واقعات میں وہ لوگ ملوث ہوتے ہیں جو بچپن میں جنسی تشدد کا نشانہ بنے ہوں ساتھ ہی پورن دیکھنا بھی محرکات میں داخل ہے والدین کا کردار یہاں بہت زیادہ اہم ہے اب وقت ہے کہ والدین اپنی اولاد کی تربیت کریں موبائل پر چیٹ کرنے کے بجائے اپنے بچوں کو زیادہ وقت دیں۔ ان سے دوریاں ختم کر کے دوستی کے رشتے کو پروان چڑھائیں۔ تاکہ کوئی تیسرا اس تعلق میں نہ گھس سکے۔ ان کے ہر عمل پر آپ کی نظر ہو، ان کی اٹھک، بیٹھک نظر میں رہے۔ ان سے ملنے جلنے والوں پر نظر رکھیں۔ کسی پر بھی اندھا اعتماد نہ کریں۔ بہت سے کیسز میں قریبی رشتہ دار، محلے دار، جاننے والے ہی ملوث پائے گئے۔ بچوں کی بات پر توجہ دیں۔ وہ اگر کسی ایسی بات، یا کسی کی کسی حرکت کی آپ سے شکایت کریں تو آپ چپ رہنے یا نظر انداز کرنے، خیر ہے کوئی بات نہیں، یا نہیں وہ ایسا نہیں کر سکتے، الٹا بچے کو ہی ڈانٹنے پر اکتفا نہ کریں۔ بلکہ ایکشن لیں چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ یہ آپ کا حق ہے۔ اور اگر آپ ایکشن نہیں لیں گے تو آپ بھی مجرم ہوں گے بچوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں تا کہ وہ ایسے کسی واقعے کا نشانہ بننے سے بچ سکیں۔ انہیں ابتدائی تعلیم سے آگاہی دیں۔ انہیں حفاظتی تدابیر سے روشناس کروائیں، تاکہ وہ کسی کی بھی لالچ میں نہ آ سکیں۔ کیوں کہ اکثر واقعات میں بچے کو کسی چیز کا لالچ دے کر، گھمانے پھرانے کا لالچ دے کر پھانسا جاتا ہے۔ آج اگر ہم اپنے معالج خود نہیں بنیں گے۔ تو بعد میں بغیر پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ بقایا ہم تو صرف صبر کے گھونٹ ہی بھر کر آنسو ہی بہا سکتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا میں کسی بھی قوم کا صبر ضائع نہیں جاتا۔ معلوم نہیں ہمارے ہاں صبر کے نتیجے کا وقت کب آئے گا؟ لیکن بہرحال بہتری کا خواب تو دیکھ سکتے ہیں۔ اور اللہ جی سے امید بھی لگا سکتے ہیں کہ وہ واحد ذات ہے جو ناممکنات کو ممکنات سے بدل سکتا ہے۔ وگرنہ ہم ہاری ہوئی قوم ہیں۔ ہم احمق ہیں احمق ہی رہیں گے۔ ہم اداس نسل ہیں جو اپنے بزرگوں کو سکھ دے سکتی ہے نا ہی اپنے بچوں کا تحفظ کر سکتی ہے۔ ہاں البتہ نعرے خوب لگا سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں