عوام کی بڑی اکثریت غربت،جہالت،خوف اور محرومی میں زندگی گزار رہی ہے،ان میں سے کچھ تو اپنی حالت کو بہتر بنانے کی خواہیش تو رکھتے ہیں مگر ہمت نہیں کر پاتے تاہم اکثریت بہتر زندگی کی آرزو مند بھی نہیں،ہر فرد صبع سے شام تک اعصاب شکن اور سر توڑ محنت کرتا ہے،رات کو بمشکل دو وقت کی روٹی کما پاتا ہے،ہر کوئی خوف زدہ ہے،عدم تحفظ کا شکار بھی،پھر بھی دوسرے کی گھات میں ہےاور ہر دم تاک میں ہے،وہ اپنے مخصوص دائرے میں گم دوسروں سے بے نیاز بھی ہے اور دوسرں کی بے توجہی کا شکار بھی،ہر وقت بے عزتی اور بھوک کا خوف اس کے سر پر سوار ہے،جو اس کے سر پر ہر گھڑی منڈ لاتا رہتا ہے،مہنگائی کی چکی میں پستا ہے،سرکاری دفتروں میں دھکے کھاتا ہے،جائز کام کے لیئے بھی رشوتیں دیتا اور ذلیل ہوتا ہے،اس کی زندگی ایک عذاب مسلسل ہے،لمحہ لمحہ عذاب، وہ یہ ذلت اور ظلم سہتا ہے مگر بولتا نہیں،احتجاج نہیں کرتا،درباری دانشور اور استحصالی نظام کے خوشہ چین اسے سمجاتے ہیں کہ بولنے کا کوئی فائدہ نہیں،ناانصافی کے خلاف احتجاج کرنا بے کار ہے،خاموش رہنا عقلمندی ہے،عوام کی اسی بے نیازی اور “عقلمندی ” کا فائدہ اٹھاتے ہوئےعیار اور مجرمانہ ذہنیت کے لوگ ریاستی اداروں میں گھس کر قومی وسائیل پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں،ہمارے ارد گرد یہی ہو رہا ہے،انہیی گھس بیٹھیوں نے لوٹ مار کا ایک بازار گرم کر رکھا ہے لاکھوں کی رشوت روزانہ وصول کی جارہی ہے سب کو معلوم ہے، جن کا کام ہے روکنا وہ خود “بہتی گنگا “میں ہاتھ دھونے میں ہیں مصروف، ایک طرف یہ اہل اقتدار کے تلوے چاٹتے ہیں دوسری طرف اپنے کالے دھندوں سے عوام کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں،ریاستی وسائیل اور ریاستی طاقت کے ذریعے عوام کا استحصال کرتے ہیں،وقت کے وزیر اعظم کا یہ بیان کہ “نیب والے لوگوں کے گھروں میں گھس کر محصوم لوگوں کو خواہ مخواہ تنگ کر رہے ہیں “اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر اطلاعات و نشریات کا ان کی حمائیت میں یکے بعد دیگرے بیانات کا داغنا کہ نیب کے پر کاٹنے کی بات تو نہیں کی ہم نے یا یہ کہ بڑھے ہوئے ناخن تراشنا پڑتے ہیں کس سمت کی نشاندہی ہے نیب ہمارے ملک پاکستان کا ہی ایک ادارہ ہے جو نیشنل اکانٹوبیلٹی پر نظر رکھنے کی خاطر ہی بنایا گیا تھا اور اگر یہ ادارہ اب تاریخ میں پہلی بار صیح بنیادوں پر کام کرنے کی روش پر اگر چل ہی نکلا ہے تو پیٹ میں درد کیسا ؟؟ تھانے قبضہ مافیا، لینڈ مافیا ،منشیات فروشوں جوئے اور عیاشی کے اڈے چلانے والےکرپٹ سیاسی لوگوں کے محتاج ان ظالم لوگوں نے قانون کو بھی خرید کر غلام بنا رکھا ہے جبکہ وکیل عدالتیں ان کی باندی بن کر انصاف کی حقیقی روح کی نفی کر رہی ہیں،اگرغلطی سے کوئی شخص دیار غیر سے پاکستان آکر اپنی چار بیٹیوں میں اپنی ملکیتی جائیداد “ہبہ ” کرنا چاہے تو پانچ ہزار کی سرکاری فیس والے اس جائز کام کے ایک لاکھ اسی ہزار کیوں طلب کیئے جاتے ہیں اور ظلم تو یہ ہے کہ کوئی یہ شنوائی سننے کو بھی دستیاب نہیں، سب کے سب کرپٹ ہو چکے ہیں،سرکاری دفاتر اور افسران میں اخلاقی قدریں پائیمال ہورہی ہیں یا ہو چکی ہیں، اور شرفاء دامن بچانے میں مصروف، تھانے ان کے عدالتیں ان کی اور قانون ان کی باندی،انہی کے اشاروں پر مجرموں کو بے گناہ اور بے گناہوں کو تھانوں میں ننگا کر کے تشدد کیا جاتا ہے،تھانوں اور سرکاری محکموں میں لی جانے والی رشوت میں ان کا حصہ ہوتا ہے،اپنے تمام گھناونے دھندوں کے باوجود یہ بہروہیئے شہر کی محفلوں میں باعزت جگہ پاتے ہیں،یہی عزت افزائی ان کا حوصلہ بڑھاتی ہے،یہ سچ ہے کہ کفر کا نظام قائیم رہ سکتا ہے پر ظلم کے نظام پر قائیم معاشرہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا، یہ بھی حقیقت ہے کہ” طاقت خوف کی زمین پر حکمرانی کرتی ہے”،دولت،اختیار اور بدمعاشی کی طاقت سے مسلع یہ مٹھی بھر پہروپیئے چھوٹے چھوٹےمسائیل میں الجھے ہوئے سہمے ہوئے لوگوں کی خون پسینے کی کمائی ہڑپ کر رہے ہیں،ظالم دندناتے پھر رہے ہیں،اس مائع ذدہ اشرافیہ نے عوام کی ذندگی اجیرن کر دی ہے،غریبوں کے بھوکے بچوں کے منہ سے نوالے چھین کر بہروپیوں نے اپنے عشرت کدے آباد کر لیئے ہیں،تھر کے علاقہ مٹھی میں ہر سال سینکڑوں محصوم بچوں کی بھوک سے مرجانے کا ذمہ دار کون؟؟ وی وی آئی پیز کے پروٹوکول کے دوران رکی ہوئی ٹریفک میں ہسپتال جاتے ہوئے مر جانے والے بچوں کی موت کا ذمہ دار کون ؟؟؟ آرمی پبلک سکول پشاوراور باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں شہید کیئے جانے والے بچوں کی شہادت کا ذمہ دار کون ؟؟؟ وفاقی وزیر داخلہ کے حلقے کے تھانے اور کچہریاں کرپشن کے مراکز ذمہ دار کون ؟؟ لیکن ستم یہ کہ ہر طرف بکھرے ہوئے اس چیختے چلاتے ظلم پر قبرستان کی سی خاموشی ہے،مذہب کے علمبردار انسانی حقوق کا واویلا کرنے والے چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے والے دانشور الفاظ کا جادو جگانے والے صحافی سب کے سب خاموش ہیں،کیا یہ خاموشی بھی ایک ظلم نہیں ہے؟ کیا ناداروں کا خون نچوڑنے والی نام نہاد اشرافیہ اور مکروہ چہرے والے بہروپیوں کی عزت افزائی ظلم نہیں ؟ کون سا مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ظالم کو خوف کی وجہ سے سر آنکھوں پر بٹھایا جائے؟ لہزا ضرورت اس بات کی ہے کہ تنظیموں کے اجلاسوں میں، میڈیا میں،اخبارات کے صفحات پر،ہر جگہ ہر فورم میں،اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیں،ظلم سے بیزاری اور نفرت و کواہت کا اظہار کریں، آپ کے یہ چھوٹے چھوٹے احتجاج آپ کی بیزاری ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے،{jcomments on}
97