کالم

بولتی ہوئی قوم: جمہوریت کی کامیابی

جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جو محض حکومتوں کی تبدیلی یا انتخابی عمل کا نام نہیں بلکہ عوام کے شعور، بیداری اور سوال کرنے کی جرات پر قائم رہتا ہے۔ جہاں عوام اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، وہاں جمہوریت زندہ رہتی ہے۔ پاکستان میں کئی دہائیوں تک جمہوریت ایک رسمی عمل کے طور پر دیکھی جاتی رہی — ووٹ ڈالنا، نتائج کا انتظار کرنا، اور پھر پانچ سال خاموش رہنا۔ مگر اب حالات بدل رہے ہیں۔ عوام خاموش تماشائی نہیں رہے۔ وہ سوال کر رہے ہیں، بول رہے ہیں، تجزیہ کر رہے ہیں، اور اپنے حقوق کے لیے میدان میں اتر رہے ہیں۔ یہی جمہوریت کا اصل حسن ہے — جب قوم اپنے مستقبل کی ذمہ داری خود اٹھاتی ہے۔

پاکستانی معاشرہ آج جس دور سے گزر رہا ہے، وہ ماضی کے کسی بھی دور سے مختلف ہے۔ اب عوام محض وعدوں اور نعروں پر یقین نہیں کرتے بلکہ نتائج مانگتے ہیں۔ عام شہری، چاہے وہ کراچی کی گلیوں میں ریڑھی لگانے والا مزدور ہو، یا لاہور کی کسی یونیورسٹی کا طالب علم — سب ایک ہی سوال کر رہے ہیں: “ہمارا ووٹ کہاں گیا؟ ہمارے ٹیکس کا پیسہ کہاں استعمال ہوا؟ اور ہمارے مسائل کب حل ہوں گے؟” یہ سوال بغاوت نہیں بلکہ شعور کی علامت ہیں۔ کیونکہ جمہوریت میں سوال کرنا ایک شہری کا حق نہیں، بلکہ فرض بھی ہے۔ ماضی میں خوف اور خاموشی نے عوام کو بے بس رکھا، مگر اب نوجوان نسل نے یہ زنجیریں توڑنی شروع کر دی ہیں۔ وہ جان چکی ہے کہ جب تک عوام خود اپنے حق کے لیے نہیں اٹھیں گے، کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔

پاکستان میں سوشل میڈیا نے عوامی بیداری میں انقلابی کردار ادا کیا ہے۔ ماضی میں خبریں چند بڑے میڈیا اداروں تک محدود تھیں، لیکن آج ہر شخص کے ہاتھ میں ایک موبائل فون ہے جو اسے خبر دینے والا، رائے بنانے والا اور نگران بنا دیتا ہے۔ سوشل میڈیا نے عوام کو ایک نیا ہتھیار دیا — “آواز کا ہتھیار”۔ اب کوئی بھی مسئلہ، کوئی بھی غلط فیصلہ، یا کوئی بھی ناانصافی چھپ نہیں سکتی۔ ٹویٹر، فیس بک، یوٹیوب اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز پر عوام اب صرف سامع نہیں بلکہ مخاطب بن چکے ہیں۔ وہ سیاستدانوں، بیوروکریٹس، صحافیوں اور حتیٰ کہ عدالتی نظام سے بھی سوال کرتے ہیں۔ اس عوامی دباؤ نے حکمرانوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ عوامی رائے کو سنیں، جواب دیں اور اپنے فیصلوں میں شفافیت لائیں۔
یقیناً، سوشل میڈیا نے کئی مسائل بھی پیدا کیے ہیں — جھوٹی خبریں، پروپیگنڈا، اور نفرت انگیز بیانات — مگر اس کے باوجود اس نے عوامی شعور کو جتنی تیزی سے بیدار کیا، وہ پاکستان کی تاریخ میں ایک غیر معمولی تبدیلی ہے۔ آج کا نوجوان سوشل میڈیا پر اپنی بات رکھتا ہے، سوال اٹھاتا ہے، اور سب سے بڑھ کر اپنی آواز کو ایک اجتماعی طاقت میں بدلتا ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو جمہوریت کو مضبوط کرتا ہے۔

پاکستانی معاشرے میں ووٹ کی اہمیت بھی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ماضی میں لوگ ووٹ کو ایک رسمی عمل سمجھتے تھے، مگر اب اسے ایک “ذمہ داری” کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ نوجوان نسل نے سیاست کو گالی نہیں، بلکہ تبدیلی کا ذریعہ سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ اب وہ جان چکے ہیں کہ ووٹ ہی وہ طاقت ہے جس سے نظام بدلا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں ووٹر آگاہی مہمات، نوجوانوں کے سیاسی مباحثے، اور الیکشن میں شفافیت کی باتیں عام ہو گئی ہیں۔
پہلے لوگ برادری، خاندان یا مذہبی وابستگی کی بنیاد پر ووٹ دیتے تھے، مگر اب ایک سوچ پیدا ہو چکی ہے کہ ووٹ اہلیت، کارکردگی اور کردار کی بنیاد پر دیا جانا چاہیے۔ یہ سوچ پاکستانی معاشرے کی بالغ نظری کا ثبوت ہے۔ عوام اب پوچھتے ہیں کہ جسے ہم نے ووٹ دیا، اس نے پانچ سال میں کیا کیا؟ تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف میں کیا بہتری آئی؟ یہی وہ شعوری تبدیلی ہے جو جمہوریت کو مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔

اب پاکستانی عوام اپنے حق کے لیے سوال اٹھانے لگے ہیں۔ وہ صرف سیاستدانوں پر تنقید نہیں کرتے بلکہ خود اپنی ذمہ داری بھی محسوس کر رہے ہیں۔ مختلف شہروں میں کسان منڈیوں کے نظام پر سوال اٹھاتے ہیں، مزدور اجرت کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، طلبہ تعلیمی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہیں، اور خواتین معاشرتی و سیاسی برابری کے لیے میدان میں ہیں۔ عوام نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اگر وہ خود بولیں گے نہیں تو کوئی اور ان کے لیے نہیں بولے گا۔ یہی شعور جمہوریت کی اصل طاقت ہے۔ جب عوام اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو کوئی طاقت انہیں زیادہ دیر تک غلام نہیں رکھ سکتی۔
یہی بیداری آج پاکستان کے ہر طبقے میں محسوس کی جا رہی ہے۔ اب عوام سمجھتے ہیں کہ ملک صرف حکمرانوں کا نہیں، بلکہ سب کا ہے۔ یہ سوچ معاشرے کو ذمہ دار بناتی ہے، کیونکہ جمہوریت میں حکومت اور عوام دونوں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔

آخر میں اگر ہم موجودہ پاکستان پر نگاہ ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ جمہوریت کا حسن ووٹ یا اسمبلیوں تک محدود نہیں۔ یہ عوام کے دلوں میں پیدا ہونے والے شعور، سوال اور عمل میں پوشیدہ ہے۔ پاکستانی قوم ابھی سفر کے آغاز پر ہے، لیکن سمت درست ہے۔ عوام نے اپنے حق کا ادراک شروع کر دیا ہے، اور یہ وہ تبدیلی ہے جو کسی قانون یا حکم سے نہیں بلکہ دلوں کی بیداری سے جنم لیتی ہے۔
اگر عوام سوال کرتے رہیں، ووٹ کو امانت سمجھیں، اور سچائی کے ساتھ اپنی آواز بلند کریں، تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان ایک ایسی جمہوریت بن جائے گا جس پر فخر کیا جا سکے۔ جمہوریت کا حسن صرف اداروں میں نہیں، بلکہ ان عوام میں ہے جو جاگ چکے ہیں، جو بول رہے ہیں، اور جو اب خاموش رہنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی  بیداری ہے —


فرقان کاظم

Recent Posts

حالیہ سیلاب کے باعث آئی،ایم،ایف نے پاکستان کی معیشت پر منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ظاہر کردیا۔

اسلام آباد(اویس الحق سے)عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے پاکستان میں حالیہ سیلاب کے…

10 hours ago

مریم نواز نے موبائل پولیس اسٹیشن اینڈلائسنسنگ یونٹ پراجیکٹ کا باقاعدہ افتتاح کر دیا گیا،ایف آئی آر کے اندراج کی سہولت بھی میسر ہوگی۔

راولپنڈی(اویس الحق سے)وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے موبائل پولیس اسٹیشن اینڈ لائسنسنگ یونٹ پراجیکٹ کا…

10 hours ago

اسلام آباد میں خاتون کے ساتھ مبینہ اجتماعی زیادتی دو ملزمان گرفتار.

اسلام آباد(اویس الحق سے)وفاقی دارالحکومت میں قائم نجی شاپنگ مال کے رہائشی اپارٹمنٹ میں خاتون…

10 hours ago

جہلم کے نواحی علاقہ تھانہ ڈومیلی کی حدود سے نومولود بچہ کی لاش برآمد

تھانہ ڈومیلی کے علاقہ پھڈیال کے گاٶں سمبلی راجگان  کے قریب جنگل سے نومولود بچہ…

10 hours ago

سعد رضوی کے نام پر 95 بینک اکاؤنٹس کو سیل کر دیا گیا،وزیراطلاعات پنجاب

لاہور (پنڈی پوسٹ نیوز) وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ سعد رضوی…

15 hours ago

مسلم لیگ ن کا آزاد جموں و کشمیر حکومت سے علیحدگی کا اعلان

اسلام آباد (پنڈی پوسٹ نیوز) پاکستان مسلم لیگ ن نے آزاد جموں و کشمیر حکومت…

15 hours ago