بنگالی بابا صرف نام کے بنگالی نہیں تھے بلکہ چندجان پہچان والوں کے مطابق میلے کچیلے کپڑوں میں لپٹے، لمبے بکھرے بال اور آنکھوں میں پراسرار روشنی لیے بابا واقعی کام کے بھی بنگالی تھے یعنی مشہور تھا کہ ان کا جادو ٹونہ کام کرتا ہے۔
بابا جی کوئی ایسا دم پاؤ کہ مجھ مسکین پر جا دو ٹونہ کرنے اور کرانے آلے سباں خنزیر، خنزیرنیاں سڑ مرن۔ محلے کی مقصود اں بی بی جو انکی سب سے زیادہ معتقد مریدنی تھی حسد اور انتقام کے الاؤمیں جلتے بجھتے بولی۔مقصود اں بی بی نے اپنی خالص دیسی زبان میں ایسے
بددعائیں بھی دیں جیسے دشمنوں کا جنازہ ہی پڑھا رہی ہو۔
بابا جی نے اپنے میلے کچیلے جھولے سے ٹیڑھی میڑھی لائنوں سے لکھے چندتعویز اور بتیاں نکالیں اوربڑبڑائے۔
“سات دن کا چلہ ہے، ایک تعویز روز جلاناہے،ساتویں شام کو میں گھر آکر خودبتیاں دکھاؤں گا۔پھر دیکھنا۔۔۔سب بھسم”
ساتویں دن بنگالی بابا مخصوص وضع قطع میں حسب وعدہ اپنی مریدنی کے گھر پدھارے۔دروازے پر مقصود اں بی بی کی بہو نے حیران ہو کر استقبال کیا
”بابا جی تسی۔۔تے ساڈے گھر!۔۔۔”
بنگالی بابانے اپنی اس مرید نی کو بھی دعا ئیں دیں۔تیریاں بھی سب پوریاں ہون گیاں۔۔۔۔بابا کا ڈسا تو پانی بھی نہیں مانگ پاتا۔
مقصود اں بی بی بابا بنگالی کے لیے جلدی جلدی کھانے اور چائے پانی کی خدمت کے بعد پانچ سو اور ہزار ہزار کے دس بارہ مڑے تڑے نوٹ اور بتیاں حوالے کرتے ہوئے زبان تڑخاتے گویا ہوئی۔۔
”اج جادو کرنے تے کرانے آلے سباں دوزخی۔۔۔جہنم۔چ۔۔۔”
بابا جی چوکڑی مار کر بیٹھ گئے اور تقریبا چار پانچ گھنٹے جنتر منتر کی پڑھائی کے بعد جب نصف شب ہونے کو آئی تو بتیاں دکھانے کی تیاری
شرو ع کر دی۔
ماچس کی دیا سلائی جلانے سے نہ جلتی تھی۔کئی بار رگڑی، مگر ہر دفعہ چس۔۔۔
پھر اچانک ایک تیلی زور سے رگڑا کھا کر چمکی اور پورے کا پورا گھر ایک ذور دار دھماکے سے لرز اٹھا۔آگ نے آنا ”فانا ” ہر شے کو اپنی شدید لپیٹ میں لیلیا۔مقصود اں بی بی کچن میں کھڑے کھڑے شعلوں کی نذر ہو گئی جبکہ بنگالی بابا اور بہو شدید جھلس کر ہسپتال میں جاکر ڈھیر ہوگئے۔
پولیس نے بعد ازاں اپنی تفتیش میں اس بات کی تصدیق کی کہ دھماکہ کچن میں مسلسل گیس لیکج کا شاخسانہ تھا۔۔۔بابا جی کے گھر آنے کی خوشی میں مقصود اں بی بی شاید گیس کے چولہے کو صحیح طوربند نہیں کر پائی تھی۔
بنگالی بابا کے خلیفہ اور مریدین اگلے دن بابا جی کے مزار پر ڈھول کی تھاپ پر جشن منا رہے تھے۔
بابا بنگالی واقعی پہنچا ہوا بابا تھا۔
اس کا جادو کام کرتا تھا۔
جادو کرنے۔۔۔کروانے والے سب بھسم۔۔۔بابا بنگالی زندہ باد۔۔۔
”حق بابا، سچ بابا” کے نعروں کے ساتھ مست دھمال پر ایک دنیا گری پڑی جا رہی تھی۔۔۔
بنگالی بابا اگرچہ خود بھی اس آگ میں جل کر بھسم ہوگیا تھا مگر اس کی لگائی آگ بہت کم عرصے میں اندھے عقیدے کے چراغوں میں اب بہت بڑی تعداد میں دہکنے لگی تھی۔ مرنے کے بعدبابا کا جادو پہلے سے زیادہ سر چڑھ کر بول رہا تھا۔