بل گیٹس کا دورہ، پولیو اورہمارے حقیقی مسائل

چند روز قبل مائیکروسافٹ کے بانی اور دنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک شخصیت بل گیٹس پاکستان کے ایک روزہ دورے پر اسلام آباد آئے۔انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی ایوان صدر میں ان کے اعزاز میں خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بل گیٹس کو پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے تعاون اور انسداد پولیو مہم کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں ہلال پاکستان سے نوازا۔ اس تقریب میں بھی وفاقی وزراء شریک ہوئے۔ بل گیٹس نے انسداد پولیو پروگرام کا دورہ کیا جہاں انہیں پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر شہزاد بیگ نے بریفنگ دی اور کورونا و پولیو کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے حکومتی اقدامات سے آگاہ کیا۔ بل گیٹس نے پاکستان کے ان اقدامات کی تعریف کی اور آئندہ بھی اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ باقی تو سب کچھ درست ہے، بل گیٹس فاؤنڈیشن غربت کے خاتمے اور دیگر فلاحی کاموں میں حصہ لے رہی ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کی توجہ پاکستان کے حقیقی مسائل کی طرف نہیں دلائی گئی۔ ان کی زیادہ تر توجہ پولیو کے خاتمے اور اس کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی طرف رہی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پولیو کبھی پاکستان کا اتنا بڑا مسئلہ رہا ہی نہیں ہے جتنا کہ بتایا جاتا ہے۔ اگر تھوڑا بہت تھا بھی تو اب تو بل گیٹس نے بھی اعتراف کر لیا ہے کہ پاکستان سے پولیو کا خاتمہ ہو چکا ہے تو پھر اس اہم ترین دورے میں ان کی ساری توجہ اس طرف کیوں رکھی گئی؟ ان کا اصل شعبہ تو انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے اس سے متعلق ان سے کوئی بات نہیں ہوئی اگر کہیں تھوڑی بہت ہوئی بھی ہو تو اتنی معمولی ہو گی کہ اس کا کہیں تذکرہ ہی نہیں ہوا۔ میڈیکل تو ان کا شعبہ نہیں ہے جو انہیں پولیو اور کورونا پر ہی بریفنگ دی گئی۔ ان کااصل شعبہ آئی ٹی ہے اور آئی ٹی کے شعبے میں پاکستان دنیا سے بہت پیچھے ہے۔ ہمارے ہاں خوش قسمتی سے ساٹھ سے ستر فیصد نوجوان ہیں لیکن بدقسمتی سے انہیں صحیح استعمال نہیں کیا جا رہا جس کی وجہ سے ان کی صلاحیتیں ضائع ہو رہی ہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی اس وقت دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی ہے جس نے دنیا کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ دنیا کا کون سا ایسا شعبہ ہے جہاں کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں ہو رہا۔ ایک ٹیکسی کی بکنگ (اوبر وغیرہ) سے لے کر ہوائی جہازوں اور راکٹ سائنس تک تمام شعبہ ہائے زندگی میں کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا راج ہے۔ حکومتی و نجی شعبوں میں ڈیجیٹلائزیشن کا عمل، ریلوے، بس، ہوائی جہازوں کے ٹکٹوں کی بکنگ، رقوم کی ادائیگی و منتقلی کی ایپلی کیشنز اور بہت کچھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہی مرہون منت ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس شعبے کی مانگ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ نوجوان اس شعبے میں مہارت حاصل کر کے اپنا معاشی مستقبل سنوار سکتے ہیں اور بہت سے نوجوان کر بھی رہے ہیں۔ بھارت اس شعبے میں بہت آگے نکل چکا ہے لیکن ہمارے ملک میں نوجوانوں کو بہت سے مسائل درپیش ہیں جس کی وجہ سے وہ اس شعبے میں خاطر خواہ خدمات سر انجام دینے سے قاصر ہیں۔ پاکستانی نوجوان باصلاحیت ہیں اور محنتی بھی، صرف انہیں مواقع میسر نہیں ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں سہولیات کے شدید فقدان کے باوجود پاکستانی نوجوان بڑی تعداد میں آئی ٹی کی دنیا سے وابستہ ہیں اور نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت کر رہے ہیں بلکہ اپنے ملک کو بھی فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان فری لانسنگ میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں فری لانسرز کی تعداد تقریباً10لاکھ ہے جنہوں نے گزشتہ برس صرف آخری چھ ماہ میں 20لاکھ ڈالر ذرمبادلہ کمایا۔ پاکستان کے دیگر لا تعداد نوجوان اس شعبے میں کام کرنا چاہتے ہیں لیکن سہولیات کے فقدان اور مسائل کی زیادتی کی وجہ سے وہ کام نہیں کر پارہے ۔ بہت سی اہم عالمی کمپنیاں تو پاکستان میں اپنی سروسز ہی نہیں دے رہی ہیں۔ رقوم کی منتقلی پاکستانی نوجوانوں کا بہت بڑا مسئلہ ہے جیسے رقوم کی منتقلی کی ایک بڑی کمپنی پے پال (Paypal)جس کی ہر جگہ ڈیمانڈ ہے وہ پاکستانیوں کو سروسز نہیں دے رہی۔ ایسے ہی اور بھی بہت سی قابل ذکر سروسز ہیں جن سے پاکستانی نوجوان محروم ہیں۔ اس کے علاوہ وطن عزیز کے ناقص قوانین بھی نوجوانوں کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں جن کی وجہ سے نوجوان آئی ٹی کے شعبے میں اپنی خدمات سر انجام دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس تناظر میں کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سرخیل بل گیٹس کے دورے میں بجائے پولیو اور کورونا پر توجہ دینے کے آئی ٹی کے شعبے پر گفتگو ہونی چاہیے تھی۔ انہیں پاکستانی نوجوانوں کی صلاحیتوں اور محرومیوں سے آگاہ کرنا چاہیے تھا۔ وہ ایسی شخصیت ہیں جن کی بات دنیا میں سنی اور مانی جاتی ہے، اس لیے اگر ان کی خدمات حاصل کر لی جاتیں تو نوجوانوں کی بہت سی مشکلات حل ہو جاتیں۔ ان سے اس شعبے کے حوالے سے معاہدات کیے جاتے، پولیو کی بجائے ان سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تعاون مانگا جاتا، جو کمپنیاں پاکستان میں کام کرنے کو تیار نہیں ہیں ان سے گفتگو کرنے کی درخواست کی جاتی۔ پاکستانی نوجوانوں کی تربیت کے لیے پروگرام متعارف کرانے کے لیے ان کی خدمات لی جاتیں تو یہ زیادہ سودمند ثابت ہوتا۔حکومت نوجوانوں کی صلاحیتوں کو صحیح طور پر بروئے کار لانے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے اقدامات کرے۔ ملک میں روزگار کے مواقع نہایت محدود ہیں، حکومت کے پاس بھی اتنی نوکریاں دینے کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر نوجوان انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے کمانے کے قابل ہو جائیں تو وہ حکومت سے نوکریاں نہیں مانگیں گے بلکہ خود بھی کمائیں گے اور ملک کو بھی بے حد فائدہ پہنچائیں گے۔
ضیاء الرحمن ضیاءؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں