گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کلرسیداں کا دورہ کیا اس دورے کا سب سے اہم واقعہ یہ ہے کہ اُن کا ہدف اس بار ن لیگ کا وہ گروپ تھا جس نے اپنا جمہوری حق استعمال کیا اور آواز بلند کی جماعت اور عوام کے لیے یہ فیصلہ موثر ہے یا کہ کوئی اور فیصلہ؟وفاقی وزیر داخلہ نے یہ کہ کر عوام کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ وائس چیئرمین کی تبدیلی کے حوالے سے مجھے تفصیلاً آگا نہ کیا گیا۔جب کہ دوسری طرف خود ہی اُنہوں نے میڈیا کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ن لیگ کے اندر گروپنگ کا علم تو میڈیا کے ذریعے ہوا۔ چوہدری نثار علی خان نے اپنے ہی ورکر اور ممبر میونسپل کمیٹی حاجی اخلاق جن کو خود وزیر داخلہ نے وائس چیئرمین نافذ کیا تھا کہ باربار بات کرنے کے لیے ہاتھ اٹھانے کے باوجود موقعہ نہ دیا۔ جبکہ حاجی اخلاق کے ساتھ سینکڑوں ورکروں کا مطالبہ تھا کہ اُن کے کونسلر حاجی احلاق کا موقف سنا جائے۔ بات نہ سننے کی صورت میں حاجی اخلاق کے تمام سپورٹرز جلسہ گاہ سے چلے گئے۔ جبکہ وفاقی وزیر داخلہ نے حاجی اخلاق کو دوبارہ غلط فہمی سے کسی اور نام سے پکارا تو ساتھ بیٹھے ایم پی اے قمر السلام راجہ نے کہا کہ ان کا نام حاجی چوہدری اخلاق ہے اسی دوران حاجی چوہدری اخلاق
کے ایک چیف رپورٹر نے اپنی کرسی سے اٹھ کر آگے آکر بات کرنا چاہی تو چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ بعد میں آپ کی بات سنی جائے گی تشریف رکھیں۔ وفاقی وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ 3سالوں میں انہوں نے 15-14ارب روپے اپنے حلقہ انتخاب میں لگایاہے۔ لیکن اگلے چھ ماہ تک ایم سی کونسلر کو کوئی فنڈز نہیں دیا جائے گا۔ انہوں نے واضح کہا کہ فنڈز نہ دینے کی سزا صرف اور صرف ایم سی میں گروپنگ کا جرم کرنے کی پاداش میں دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم سی کو ذاتی و سائل سے چلائیں لیکن میری طرف سے صاف جواب ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے چیئرمین بلدیہ شیخ عبدا لقدوس کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا انہوں نے کہا کہ جن کو شیخ قدوس کا چہرہ پسند نہیں ان کے لیے میں کیا کروں انہوں نے مزید کہا کہ شیخ قدوس کیوں نہ کلرسیداں کا چیئرمین ہو میرے مشکل وقت میں شیخ قدوس ہی نے سر رکھا تھا۔ مقامی سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار علی خان نے گو کہ اپنے فیصلے کو جو انہوں نے حاجی اخلاق کو وائس بنا کر کیاتھا تبدیل ہونے پر اور 13رُکنی گروپ کا اپنی مرضی سے چوہدری ضیارب کو وائس چیرمین بنانے پر اپنا غصہ نکالا ہے۔ لیکن یہ اتنا بڑاجرم اس لیے نہیں ہے کہ اب تک بھی 13رکنی گروپ اور چیرمین شیخ قدوس گروپ دونوں کا سیاسی کعبہ وزارت داخلہ ہی ہے یہاں اگر چوہدری نثار علی خان دونوں گروپوں کے بارے میں ساتھ ہو لہ رکھتے نہ ایک طرف تو پوں کا رخ کرتے تو آنے والے دنوں میں ایم سی کے اندر ماحول بہت سازگار رہتا۔ نہ صرف تمام ممبران اب تک کے گلے شکوے رفتہ رفتہ بھول جاتے بلکہ چوہدری نثار علی خان اور مسلم لیگ ن کے لیے یک جان ہو کر لڑتے۔ چوہدری نثار علی خان کی آج کی تقریر نے ایک بار پھر دونوں گروپوں کو اپنے اپنے حوریوں پہ دوبارہ پوزیشن سنبھالنے پر مجبور کر دیا۔ مسلم لیگ ن کا نظریاتی ورکر موجودہ حالات سے مایوس ہو کر غیر فعال ہوتا جا رہا ہے۔ جبکہ ورکر کسی بھی جماعت کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ پارٹیوں پہ جب بھی مشکل وقت آتا ہے تو ورکر ہی ایندھن کے طور پر جلتا ہے۔ چوہدری نثارقسمت کے دھنی ہیں کہ 2002سے اب تک کلرسیداں کے عوام اور نظریاتی ورکرز نے ان کو بے پناہ عزت و احترام اور اعتماد سے نوازی ہے انہوں نے اس کے جواب میں بے پنا ہ فنڈز دئیے میگا پراجیکٹس دئیے۔ لیکن 13رکنی گروپ کلرسیداں کے 13گاؤں اور وارڈ کی نمائندگی کر رہے تھے۔ ان 13وارڈ کے سربراہوں کو آڑے ہاتھوں لینے پر دوسرے گروپ کے علاوہ مخالف جماعتوں کے پاس سیاسی مواقع آ گئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ایم سی کلرسیداں میں ن لیگ کے 28ممبران جو ایک دوسرے کے لیے وجہ عزت اور وجہ ذلت بنے ہیں 2018میں تمام رنجشیں بھلا کر چوہدری نثار علی خان کے الیکشن کو اپنا الیکشن سمجھ کر حصہ ڈالیں گے۔ یا پھر جس کے ساتھ جیسا رویہ ہے ویسا ہی تعاون ہوگا؟