بلدیاتی انتخابات میں رکاوٹ،ذمہ دار کون؟

شہزاد رضا
بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہر سطح پر عوامی شرکت کو ممکن بناتا ہے اور لوگوں کو اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ انتخابات مقامی سطح پر فیصلہ سازی میں عوام کی شرکت کو یقینی بناتے ہیں اور انہیں اپنے علاقے کی ترقی میں براہ راست کردار ادا کرنے کا موقع دیتے ہیں۔بلدیاتی انتخابات عوام کو اپنے نمائندوں کے انتخاب میں براہ راست شامل ہونے کا موقع دیتے ہیں، جس سے عوامی شرکت میں اضافہ ہوتا ہے۔بلدیاتی انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والے نمائندے مقامی سطح پر فیصلے کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جو کہ علاقے کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ بلدیاتی نمائندے اپنے ووٹرز کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں، جس سے ان کے کام کا معیار بہتر ہوتا ہے اور وہ عوامی مفادات کے مطابق کام کرتے ہیں۔بلدیاتی انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والے نمائندے اپنے علاقے کی ترقی کے لیے کام کرتے ہیں، جس سے علاقے کی مجموعی ترقی ہوتی ہے۔


پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بالآخر الیکشن کمیشن کو ہوش آگیا گزشتہ دنوں ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ سندھ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہو چکا اگر کہیں الیکشن نہیں ہوئے تو وہ صوبہ پنجاب ہے جس پر چیف سیکرٹری نے بریفنگ میں بتایا کہ پانچ سے زائد مرتبہ حلقہ بندیاں کر چکے مگر ہر بار صوبائی حکومت رکاوٹ بن جاتی ہے کبھی بلدیاتی ایکٹ میں ترامیم اور کچھی عدالتوں سے اسٹے لیکر معاملہ ٹال دیا جاتا ہے چیف الیکشن کمیشن نے ریمارکس میں کہا کہ اب چاہے کچھ بھی ہو الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پوری کرے گا ہمیں کوئی روک نہیں سکتا پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے نہ ہونے کا ذمہ دار الیکشن کمیشن کو ٹھہرایا جاتا ہے انھوں نے فوری حلقہ بندیوں کا اعلان کرتے ہوئے 2021 کے بلدیاتی نظام کے تحت الیکشن کرانے کا اعلان کیا اور صوبائی حکومت کو حکم دیا کہ نقشے و دیگر ضروری دستاویزات الیکشن کمیشن میں جمع کرائی جائیں لیکن پھر کیا تھا کہ پنجاب حکومت کی ایسی دوڑیں لگیں کہ چند روز میں نیا بلدیاتی قانون اسمبلی میں پیش کر کے منظوری لی گئی اور الیکشن کمیشن سے چند ہفتوں کا وقت لینے کی استدعا کی گئی جو الیکشن کمیشن نے منظور کر لی۔

اب ذرائع کا یہ کہنا ہے صوبائی حکومت الیکشن کمیشن سے مہلت لینے میں کامیاب ہو گئی جس کا مطلب ہے کہ انتخابات کے فوری انعقاد کا معاملہ ٹَل گیا معتبر زرائع یہ بات بتاتے ہیں کہ انتخابات کا انعقاد اپریل 2026 میں ممکن ہو سکے گا۔بلدیاتی حکومتوں کا قیام نہ ہونے کا ذمہ دار صرف الیکشن کمیشن کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا اس میں برسر اقتدار سیاسی جماعتوں کا بڑا کردار ہوتا ہے اس لیے جتنا قصوروار الیکشن کمیشن ہے اتنا ہی قصور ماضی میں برسراقتدار رہنے والی جماعت تحریک انصاف اور اب مسلم لیگ ن ہے آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے عوام میں مقامی حکومتوں کا قیام نہ ہونے کو غلطی نہیں غفلت کہنا چاہیے جہاں مقامی نمائندے نہ ہونے سے گلی نالی اور دیہات کی سطح کے دیگر مسائل کے حل کے لیے عوام کو ایم پی ایز اور ایم این ایز سے ملاقات کا کئی کئی ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے


اگر الیکشن کمیشن کو کئی سالوں بعد ہوش آگیا تو صوبائی حکومت کو ادارے کا ساتھ دینا چاہیے اور انتخابات ہر صورت مقررہ تاریخ پر ہونے چاہییں اس سے قبل دیکھا جائے تو کتنی بار مقامی انتخابات کے لیے حلقہ بندیاں ہوئیں شیڈول کا اعلان ہوا مگر پھر کیا نتیجہ کیا نکلا یہ سب کو معلوم ہے یہاں حکومتیں بچانے اور توڑنے کے لیے تو راتوں رات ترامیم اور بل پاس کرانے کی تاریخ بھی موجود ہے یہاں نمبرز آف گیم پورا کرنے کے لیے اراکین اسمبلی کو اغواءکرنے کی روایت بھی قائم ہے اور تو اور سیاسی جماعتوں کے اراکین کی وابستگیاں بھی تبدیل کی جاتی ہیں کیا کبھی اتنی ایمرجنسی عوامی حقوق کی فلاح و بہبود کے لیے قوانین بنانے میں بھی دیکھی گئی کیا کوئی ایسا قانون پاس ہو سکتا ہے کہ ہر پانچ سال بعد مقامی حکومتوں کے لیے ایسا قانون قائم ہو جائے کہ انتخابات کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ نہ بن سکے اور اگر کوئی ادارہ ایسا کرے تو اس کے لیے سزا کا تعین بھی کر دیا جائے ۔کیونکہ ملک عوام سے ہوتا ہے ریاست اسی وقت ریاست کہلائے گی جب عوام کو ان کے حقوق کی ادائیگی ممکن ہو سکے گی ہمیں سوچنا ہو گا کہ وہ کون ہیں جو اس بنیادی حق سے دور رکھے ہوئے ہیں اپنے اپنے سیاسی مفادات کی گیم میں عوام پس رہی تھی پس رہی ہے اور ایسے ہی پستی رہے گی