کالم

بلدیاتی انتخابات مضبوط جمہوریت کے لیے نا گزیر

پاکستان میں جمہوریت کے بلند و بانگ دعوے تو اکثر سننے کو ملتے ہیں، مگر جب بات عوامی سطح پر اقتدار کی منتقلی کی آتی ہے، تو وہی سیاسی جماعتیں جو پارلیمان میں جمہوریت کی دہائی دیتی ہیں، خود اس کی سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ بلدیاتی نظام جو جمہوریت کی جڑوں کو مضبوط کرتا ہے ہمیشہ سے ہمارے سیاسی نظام کی سب سے کمزور کڑی رہا ہے۔ اسے کبھی عدالتی مقدمات کی نذر کر دیا جاتا ہے، کبھی مردم شماری یا حلقہ بندیوں کے بہانے موخر کر دیا جاتا ہے، اور کبھی اقتدار میں بیٹھی حکومتوں کے لیے یہ نظام ایک“غیر ضروری بوجھ”بن جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کا سب سے بڑا سبب خود سیاسی حکومتیں رہی ہیں۔ جب بھی کوئی صوبائی حکومت اقتدار میں آتی ہے تو وہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے سے ہچکچاتی ہے۔ اس ہچکچاہٹ کے پیچھے ایک سیاسی منطق ہے، وہ یہ کہ اگر اختیارات یونین کونسل یا ضلع کی سطح تک چلے گئے، تو عوام براہِ راست اپنے نمائندوں کے ذریعے مسائل حل کرنے لگیں گے اور صوبائی یا قومی سطح کے سیاستدانوں کی اہمیت کم ہو جائے گی۔ اس لیے اکثر حکمران جماعتیں بلدیاتی انتخابات کو مؤخر کر کے اپنے اراکینِ اسمبلی کے دائرہ اثر کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔
یہ تاخیر صرف چند ہفتوں یا مہینوں کی نہیں، بلکہ کئی سالوں پر محیط ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب میں گزشتہ بلدیاتی ادارے تحلیل کر دیے گئے اور نئے انتخابات کے اعلان کے باوجود بار بار ملتوی ہوتے رہے۔ کبھی کہا گیا کہ مردم شماری مکمل نہیں ہوئی، کبھی حلقہ بندیوں کا مسئلہ اٹھا دیا گیااور کبھی مالی بحران کا بہانہ بنا کر الیکشن کمیشن کے لیے فنڈز روک لیے گئے۔ ان سب وجوہات کا مشترکہ مقصد ایک ہی تھا، اقتدار کو عوام کے ہاتھ میں دینے سے گریزکیونکہ جیسے ہی بلدیاتی نمائندے منتخب ہو جاتے ہیں، وہ اپنے علاقے کے عوامی معاملات میں بااختیار ہو جاتے ہیں جس سے صوبائی سطح کے وزراء اور اسمبلی ارکان کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے۔اس تاخیر سے حکومتوں کو وقتی سیاسی فائدہ تو ضرور ہوتا ہے، مگر عوامی سطح پر نقصان ناقابلِ تلافی ہوتا ہے۔ بلدیاتی اداروں کی غیر موجودگی میں تمام فیصلے بیوروکریسی کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ سرکاری افسران عوام سے جوابدہ نہیں ہوتے لہٰذا ان کے فیصلے اکثر زمینی حقائق سے دور اور حکومتی مفادات کے قریب ہوتے ہیں۔ نتیجتاً ترقیاتی منصوبے تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں، فنڈز مخصوص علاقوں میں استعمال ہوتے ہیں اور عام شہری کا مسئلہ چاہے وہ گلی کی صفائی کا ہو یا پانی کے نکاس کا برسوں حل نہیں ہوتا۔
جمہوریت کی روح شفافیت، شمولیت اور احتساب میں مضمر ہے۔ جب بلدیاتی ادارے معطل رہتے ہیں، تو یہ تینوں اصول مجروح ہوتے ہیں۔ عوام کے پاس اپنی آواز اٹھانے کا کوئی فورم نہیں رہتا۔ سیاسی نمائندے عوام کے بجائے مرکز یا صوبے کے حکم کے پابند بن جاتے ہیں۔ یہی وہ صورتحال ہے جس نے پاکستان میں جمہوریت کو ایک محدود طبقاتی نظام میں بدل دیا ہے جہاں اقتدار اوپر کے ہاتھوں میں مرتکز ہے اور نیچے صرف امیدیں باقی ہیں۔
تاہم اس مایوس کن منظرنامے میں پنجاب میں الیکشن کمیشن کا حالیہ اقدام امید کی ایک کرن کے طور پر سامنے آیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر کے ایک جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے۔ یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر سیاسی حکومتیں اپنے آئینی فرائض میں غفلت برتیں تو ادارے اب بھی جمہوریت کے بوجھ کو اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پنجاب میں یہ اعلان محض ایک انتخابی عمل نہیں بلکہ ایک سیاسی پیغام بھی ہے — کہ جمہوریت محض اسمبلیوں تک محدود نہیں رہ سکتی، اسے عوام کے دروازے تک پہنچنا ہوگا۔
البتہ اصل چیلنج ابھی باقی ہے۔ ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ حکومتیں الیکشن کے بعد بھی بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دینے سے گریز کرتی ہیں۔ مقامی حکومتوں کو مالی خودمختاری، ترقیاتی فنڈز کا براہِ راست اختیارات اور انتظامی فیصلوں میں شرکت کے حقوق ملنے کے بعد ہی یہ نظام مؤثر بن سکتا ہے۔ اگر بلدیاتی نمائندے صرف نام کے ہوں اور ہر فیصلہ بیوروکریسی یا صوبائی حکومت کے دفتر سے جاری ہو، تو یہ نظام محض نمائشی جمہوریت بن کر رہ جائے گا۔پنجاب میں الیکشن کمیشن کے اعلان کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے مگر اس خیر مقدمی رویے کو الفاظ تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت اس عمل کو پوری سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھائے، فنڈز فراہم کرے، حلقہ بندیاں شفاف طریقے سے مکمل کرے اور بلدیاتی نمائندوں کو حقیقی اختیارات دے۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہوا، تو یہ انتخابات بھی محض سیاسی تماشہ ثابت ہوں گے، جس کا مقصد صرف یہ دکھانا ہوگا کہ جمہوریت زندہ ہے حالانکہ درحقیقت وہ نیم مردہ ہو چکی ہو گی۔
پاکستان کو ایک مضبوط جمہوری ڈھانچے کی ضرورت ہے اور اس کی بنیاد بلدیاتی نظام کے استحکام میں پوشیدہ ہے۔ جب تک عوام کو اپنی گلی، اپنے محلے اور اپنے شہر کے فیصلے خود کرنے کا حق نہیں دیا جائے گا، تب تک جمہوریت محض نعرے کی حد تک محدود رہے گی۔ بلدیاتی انتخابات کا بروقت انعقاد دراصل جمہوریت کی بقا کی علامت ہے اور جو قوتیں اس عمل میں تاخیر کرتی ہیں وہ درحقیقت عوامی اختیار کے دشمن ہیں چاہے وہ سیاسی ہوں یا انتظامی۔ پنجاب میں الیکشن کمیشن کا اعلان اس جمود کو توڑنے کی ایک کوشش ہے اور اگر اسے عوامی تائید، حکومتی سنجیدگی اور شفاف عمل کا سہارا ملا تو شاید یہی وہ لمحہ ہو جو پاکستان میں حقیقی جمہوریت کی بنیاد ڈال دے۔

ضیاء الرحمن ضیاءؔ
ضیاء الرحمن ضیاء

Recent Posts

جہلم پولیس کی کارروائی ہیر گینگ کی تین خواتین گینگ سرغنہ سمیت گرفتار

ایس ایچ او تھانہ سول لائنز کی کاروائی،چوری کی متعدد وارداتوں میں ملوث ہیر گینگ…

1 hour ago

زیر سمندر فائبر آپٹک کیبل کی مرمت، انٹرنیٹ سروس کل متاثر رہ سکتی ہے

کراچی(حذیفہ اشرف سے)عالمی کیبل کنسورشیم کی جانب سے سمندر میں موجود فائبر آپٹک کیبل کی…

2 hours ago

تحریکِ لبیک کا ملک گیر احتجاج ختم، 17 اکتوبر کو نیا لائحہ عمل لاہور سے ہوگا

لاہور (حذیفہ اشرف سے)تحریکِ لبیک پاکستان (TLP) نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے…

6 hours ago

وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف کی محمود عباس سے ملاقات۔

اسلام آباد(اویس الحق سے)فلسطین کے صدر محمود عباس نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی…

7 hours ago

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے تبلیغی جماعت کے رہنماؤں کی ملاقات، رائے ونڈ اجتماع کے لیے خصوصی انتظامات کی ہدایت

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز الیکٹرو بس سروس، سڑکوں کی مرمت، خصوصی صفائی مہم اور…

7 hours ago

اٹک: آستانہ عالیہ خوشبوئے مدینہ نقیبیہ میں سالانہ بڑی گیارہویں شریف کی روح پرور محفل، وسیلۂ الٰہی پر علماء کے خطاب

اٹک میں سالانہ بڑی گیارہویں شریف کے موقع پر آستانہ عالیہ خوشبوئے مدینہ نقیبیہ میں…

10 hours ago