بلدیاتی اداروں کے اختیارات/آصف محمود شاہ

سب سے پہلے اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے زمین کی خشک سالی کے لیے باران رحمت کا نزول کیا اور جمادات نباتات ،چرند پرند سب کے چہرے کھل اٹھے،بچپن سے جو بھی کہانی سنی اس میں جنگل میں شیر کی بادشاہت کا سنتے رہے ہیںیہ کہانی بھی ایک

جنگل کی ہے لیکن ذرا مختلف اس جنگل میں شیر کی بادشاہت جانوروں کو پسند نہ تھی انہوں نے کہا کہ کوئی اور جانور بادشاہ ہوگا سرکردہ جانور نے اپنے اپنے من پسندکو آگئے لانے کے لیے زور شور سے الیکشن کی مہم چلانے لگے مقام شکر ہے کہ جنگل میں ٹکٹ کا کوئی رولا نہ تھا ورنہ الیکشن کینسل بھی ہو سکتے تھے لیکن قسمت کی مہربانی اور ووٹوں نے گلہری کو بادشاہت دے دی اس کی بڑی وجہ اس کی پھرتیاں اور تیزطرازیاں تھی کامیابی کا نشہ ایک عجیب کیفیت کا نام تھا اس پر گلہری بھی خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی اپنے اقتدار کی منتقلی کے پہلے ہی دن جب وہ خواب میں اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھی تو اس وقت ایک بندریا روتی چلاتی اس کے حضور پیش ہوئی اور عرض کی کہ جناب کسی شکاری نے میرے پھول سے بچوں کا اغوا کر لیا ہے آپ کی بادشاہت میں یہ ظلم یہ سن کر گلہری نے کچھ سوچا اور بندریا کو بٹھا کر خود ارد گرد کے درختوں میں چھلانگے لگانے لگی بندریا نے کچھ دیر یہ تماشا دیکھا اور پھر بادشاہ کے حضور عرض کی کہ میرے بچے اغوا ہو گئے ہیں اورآپ درختوں پر چھلانگیں لگا رہے ہیں اس پر بادشاہ یعنی گلہری نے جواب دیا کہ دیکھو جتنا میرا بس ہے اتنی میں دوڑ کررہی ہوں، ہمارا بلدیاتی نظام بھی ایسی صورتحال کا شکار ہے کہ ایک سال ہونے کے بعد ان منتخب چیئرمینوں کو اللہ اللہ کر کے اختیار ات منتقل کر دیے گئے،بے اختیار چیئرمین با اختیار بن گئے گزشتہ دنوں جب اختیارات منتقل کیے گئے تو تما م یوسیز کے منتخب نمائندوں نے اپنی اپنی یوسیز میں اپنے منتخب جنرل کونسلر ،لیڈی کونسلر یوتھ اور کسان کونسلر کے ساتھ باقاعدہ ایک اجلاس کیا اوراس میں ترقیاتی کاموں کو بہترین طریقے سے انجام دینے کا اعادہ کیا گیااور بلدیاتی الیکشن میں عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے عزم کو دہرایا گیا،اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا این اے 52کی کسی یو نین کونسل میں ایسا ہونا ممکن ہے؟اس وقت پوری حلقہ میں ن لیگ کا راج بھاگ ہے اور تمام منتخب نمائندے بھی ن لیگ سے ہیں اور وہ عوام سے کیے گئے تمام وعدے کہاں تک پورے کر سکیں گئے اس وقت تک منتخب نمائندوں کو اختیارات تو دے دیے گئے ہیں لیکن کیا وہ فنڈز کو بھی اپنی صوابدید سے استعمال کر سکیں گے یا اس بار بھی ان کو کسی اشارے کا منتظر ہونا ہوگاعوامی رائے عامہ کا کہنا ہے کہ بنتخب نمائندے اب بھی اس قابل نہیں کہ وہ عوام کے مسائل کو حل کر سکیں گئے دوسری طرف حکومت پنجاب نے ان کے حصول فنڈز کو اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے جن کا حصول بھی ان کے ممکن نہ ہو گا بلکہ وہ کسی کے مرہون منت ہوں گئے ن لیگ کی قیادت کو بھی یہ پتہ ہے کہ اگر ان منتخب نمائندوں کو اتنا بااختیار بنا دیا گیا تو ترقیاتی کاموں میں اپنی مداخلت ختم ہو کر رہ جائے گئی اور آنے والے الیکشن میں یہ نمائندے ان کے لیے درد سر کا باعث بن سکتے ہیں لیکن ایک بات یو عیاں ہے کہ حکومت منتخب نمائندوں کو اصل اختیارات دینا ہی نہیں چاہتی کروڑوں کے فنڈز کو جب سیاست کے گراس روٹ پر منتقل کر دیا گیا تو ایم این اے اور ایم پی اے عضومعطل ہو کر رہ جائیں گئے اور پھر سنجیاں ہوڑ گلیاں تے وچ رانجھا یار پھرے والا کام ہو گا اس کا سب سے بڑا اثر یہ ہو گا کہ آنے والے الیکشن میں ٹکٹ نہ دینے کا مسلہ بھی نہ ہوگا اور جو منتخب بلدیاتی نمائندہ ترقیاتی کاموں میں اپنا نام بنائے گا وہ آنے والے دنوں میں سیاسی ضرورت بنے گا لیکن سیاسی جغادری کسی کے مر ہون منت ہونے کے بجائے ہر کسی کو اپنے زیر تسلط رکھنا چاہتے ہیں اب یہ منتخب نمائندوں کا کام ہے کہ وہ اپنا حق وصول کرتے ہیں یا پھر کٹھ پتلی بن کر ناچیں گے اس وقت بھی بعد یوسیزمیں ایسے بھی منتخب نمائندے موجود ہیں جو بغیراختیارات کے بھی لوگوں کے مسائل کوحل کرنے کا کام بطریق احسن سر انجام دے رہے ہیں اور وہ کسی کے مرہون منت ہونے کے بجائے سیاست کو بھی خیر آباد کہنے سے دریغ نہیں کریں گئے،اب یہ فیصلہ منتخب نمائندوں کا ہے کہ وہ اپنا حق وصول کر کے اس عوام کی خدمت کو اپنا سر فخر سے بلند کریں گئے یا پھر وہ سیاست میں رہنے کے لیے مثل گلہری چھلانگیں لگا کر سیاسی پارٹیاں بدلی کریں گے اب عوام باشعور ہے اور ایسے لوگوں کو مکمل مسترد کر دیں گے جو ان کو چکر دیکرخود تو سیاست میں رہ کر اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں اور غریب اور بیچاری عوام ان کے کیے گئے وعدوں کے سہارے جیتی ہے منتخب بلدیاتی نمائندوں کو اپنی استطاعت کو بڑھانا ہو گابصورت دیگر وہ اپنی سیاست کو زندہ رکھنا ان کے لیے مشکل ہو گا۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں