قارئین کرام! کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا تذکرہ کیا جانا بہت ضروری ہوتا ہے حالانکہ وہ تذکرے کے محتاج نہیں ہوتے، راقم کی عادت ہے کہ میں نے آج تک چاپلوسی، کاسہ لیسی کرتے ہوئے اپنے قلم کا استعمال نہیں کیا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ الیکشن میں ایک پارٹی کے امیدوار کے کارخاص کی جانب سے مجھے آفر دی گئی تھی کہ حق میں کالم لکھو ہم اسے پبلش کرائیں گے اور تمہیں بہتر معاوضہ بھی ملے گا مگر راقم نے اس کو انکار کر دیا تھا، کیونکہ قلم کا ضمیر کیساتھ گہرا تعلق ہے اور اگر قلم بِک کر لکھے گا تو آپکا ضمیر کبھی مطمئن نہیں ہو گا۔طارق محمود ہمدانی مرحوم ان چند افراد میں سے ایک فرد ہے جس کا تذکرہ کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں، بلبل پوٹھوہار کے لقب سے ساری دنیا میں مشہور تحصیل گوجرخان کی یونین کونسل جنڈمہلو کے مشہور علاقہ پروج شریف سے متصل ڈھوک میں رہنے والا طارق محمود ہمدانی منوں مٹی تلے جا سویا ہے، گزشتہ دنوں علالت کی خبر نے گردش کی تو ہر طرف دعاوں کا سلسلہ جاری ہوا مگر کب تک انسان جی سکتا ہے، موت اٹل حقیقت ہے اور اس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا، خالق حقیقی سے جاملے۔انکے بیٹے اویس طارق نے بتایا کہ والد مرحوم شوگر کے مریض تھے اور انکی عمر 60 سال تھی، ہارٹ اٹیک کے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے اور جانبر نہ ہو سکے، مرحوم طارق محمود سلسلہ ہمدانیہ میں بیعت تھے اور اسی وجہ سے انکے نام کیساتھ ہمدانی لکھا اور پڑھا جاتا ہے، بھنگالی شریف کے سادات پیر سید عبداللہ شاہ ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف ان کو نصیب تھا اور دربار کے سبھی سادات ان کو اہمیت و فوقیت دیتے تھے
اس حوالے سے انکو درباری نعت خوان بھی کہا جاتا تھا۔قارئین کرام! عقیدت و محبت کے ماحول میں صاحبان نسبت اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ صحیح العقیدہ شخص جب کسی سلسلے کا بیعت ہوتا ہے تو اس سلسلے کے اس وقت کے سجادہ نشین و گدی نشین کا کسی اہم موقع پر اس مرید کے گھر آنا بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، موجودہ سجادہ نشین بھنگالی شریف سید جابر علی شاہ ہمدانی اور انکے بھائی سید مخدوم عباس شاہ ہمدانی نے طارق محمود ہمدانی کی نماز جنازہ میں بطور خاص شرکت کی اور دربار سے وفاداری کا صلہ دنیا سے جاتے ہوئے اس وفادار کو دے دیا۔ یعنی یک نہ شُد دو شُد۔ دونوں بھائیوں میں سے کوئی ایک بھی جنازہ میں شرکت کر سکتے تھے مگر دونوں بھائیوں نے شرکت کر کے طارق محمود ہمدانی کو اسکی وفاوں کا صلہ دیا اور لوگوں کو پیغام دیا کہ وفاداروں کا یہی صلہ ہوتا ہے۔اہلیان گوجرخان کے سامنے طارق محمود ہمدانی کے شب و روز گزرے ہیں اس شخص نے ساری زندگی عاجزی و انکساری کیساتھ گزاری، بیرون ممالک کے دورے بھی نعت کے حوالے سے کئے مگر اس میں اکڑ نہ آئی، ہمارے ہاں رواج ہے جس گھر کا لڑکا بیرون ملک بسلسلہ روزگار مقیم ہو اس فیملی کے پاوں زمین پر نہیں لگتے اور وہ محل نما کوٹھیاں اور بنگلے بنا کر اِتراتے پھرتے ہیں مگر طارق محمود ہمدانی نے بیرون ممالک کے دورے کر کے بھی اپنی عاجزی و انکساری کو برقرار رکھا اور یہ اس کو رب کریم کی خاص عطا تھی، جیسا کہ راقم نے ذکر کیا کہ سادات کا بہت مودب شخص تھا، جس شخص کے نام کیساتھ سید ہوتا اس کی راہوں میں بِچھ بِچھ جاتا، جس کا عملی مظاہرہ راقم نے کئی بار دیکھا اور پھر سادات کی خدمت و عزت کا صلہ اسے جنازے کی شکل میں مِلا اور قبر میں بھی یقیناً مل رہا ہو گا، نماز جنازہ میں ڈویژن بھر سے سادات، علماء، نعت خوان حضرات نے بڑی تعداد میں شرکت کی، گوجرخان کی معروف شخصیت علامہ قاری ظہور احمد چشتی مرحوم و مغفور کیساتھ ان کا پکا یارانہ تھا، انکی مسجد میں منعقدہ ہر محفل میں طارق ہمدانی کی موجودگی لازم ہوتی تھی، بلبل پوٹھوہار کے نام سے طارق محمود ہمدانی کو دنیا بھر میں پہچانا جاتا تھا اور عارف کھڑی میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کی ان سے ہر جگہ فرمائش کی جاتی تھی۔ مناقب اہل بیت اس دلجمعی کیساتھ پڑھتے تھے کہ محبان اہل بیت ان کا ماتھا چوم لیتے تھے، ان کے حمد نعت مناقب پڑھنے کا انداز کلاسیکل نہیں بلکہ عوامی تھا، اپنے گلے کا بہترین استعمال کرتے تھے اور جس مصرعے پہ جتنا حق بنتا تھا اتنا زور لگا کر پڑھتے تھے، اب تو نعت خوان ساونڈ کے زور پہ نعت پڑھتے ہیں مگر وہ رب کی عطاء کیساتھ اپنے گلے کے زور پہ نعت پڑھنے والا آدمی تھا۔طارق محمود ہمدانی کو سادات کی محبت کے صلے میں انکے گھر کے قریب ہی دربار سادات کے احاطہ میں تدفین کا شرف حاصل ہوا ہے، جنازے کے ایک دن بعد قبر پر حاضری دی تو اپنے موبائل میں موجود آڈیو کلپس آن کئے جو انہوں نے علامہ قاری ظہور احمد چشتی کے جنازے پہ کلمہ شریف، درود شریف، منقبت کی صورت میں پڑھے تھے، بس وہ آڈیو کلپ چلانے تھے کہ بے اختیار آنسو چھلک پڑے اور دعا یہی نکلی کہ اس پاک ذکر کا صدقہ مولا انکے درجات بلند کرے۔طارق محمود ہمدانی کے تین بیٹے ہیں، جن میں سے ایک بیٹا اویس طارق انکے نقش قدم پہ چلتے ہوئے شعبہ نعت خوانی میں اپنا مقام بنا رہا ہے، اویس طارق نے بھی بیرون ممالک دورے کئے ہیں اور والد مرحوم کی بیماری کے آخری ایام میں بیرون ملک سے واپس آئے ہیں، اویس طارق نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے والد مرحوم کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ان کے پڑھے ہوئے مشہور زمانہ شعر پہ اختتام کرتا ہوں کہ:
سدا بہار دیویں اس باغے کدی خزاں نہ آوے
ہوون فیض ہزاراں تائیں ہر پُہکھا پھل کھاوے