اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے جو فیصلہ دیا کہ توہینِ مذہب کے مقدمات میں ملوث کرداروں کی جانچ پڑتال کے لیے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جائے، وہ نہ صرف قابل تحسین ہے بلکہ وقت کی اشد ضرورت بھی تھا۔ یہ فیصلہ محض عدالتی جرات کا مظہر نہیں بلکہ عوامی مفاد اور انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایک اہم قدم ہے۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ آن لائن بلاسفیمی (توہینِ مذہب) کے مقدمات میں اب تک تقریباً 400 سے زائد ایف آئی آرز درج ہو چکی ہیں اور 700 کے قریب افراد نامزد کیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے متعدد افراد نے یہ مؤقف اپنایا کہ انہیں جھوٹے الزامات میں پھنسایا گیا، مگر افسوس، ان دعوؤں کی کبھی غیرجانبدار تفتیش ہی نہیں کی گئی۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق صاحب نے اپنے فیصلے میں نہ تو توہینِ رسالت ﷺ کے قانون 295-C کو چیلنج کیا، نہ اس پر کوئی پابندی لگائی، اور نہ ہی کسی مقدمے کے ٹرائل کو روکنے کی بات کی۔ ان کا کہنا صرف اتنا تھا کہ ان مخصوص افراد کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کی جائیں جو بار بار مدعی بن کر سامنے آ رہے ہیں اور جن پر یہ الزام ہے کہ وہ قانونِ توہینِ مذہب کو ذاتی مفادات اور سیاسی انتقام کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ اس معقول اور آئینی فیصلے کو مذہبی اور سیاسی رنگ دے کر ایک مخصوص طبقہ، جس میں مولانا فضل الرحمٰن اور چند مذہبی و سیاسی شخصیات شامل ہیں، معزز جج صاحب کے خلاف محاذ آرائی پر اتر آیا ہے۔ یہ وہی طبقہ ہے جسے آج عوام “بلاسفیمی بزنس گروپ” کے نام سے جاننے لگی ہے — ایک ایسا گروہ جو ناموسِ رسالت ﷺ کے تقدس کے پیچھے چھپ کر اپنے ذاتی مفادات کی جنگ لڑ رہا ہے۔
عدالتی ریکارڈ، سماعتوں کی ویڈیوز، اور پیش کردہ شواہد یہ واضح کرتے ہیں کہ تحقیقاتی کمیشن کا مقصد صرف اور صرف ان مقدمات کی شفاف اور غیرجانبدارانہ جانچ پڑتال ہے۔ اس کا کوئی تعلق قانون 295-C میں ترمیم یا خاتمے سے نہیں۔ بدقسمتی سے عوام کو گمراہ کرنے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ فیصلہ قانونِ ناموسِ رسالت ﷺ کے خلاف ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کچھ مخصوص حلقے قانونِ توہینِ مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کر کے نہ صرف بے گناہ افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ معاشرے میں خوف، انتقام اور نفرت کی آگ بھی بھڑکا رہے ہیں۔ ایسے عناصر کا احتساب اب ناگزیر ہو چکا ہے۔
بلاسفیمی کیس کی آخری سماعت اقر فیصلہ کے بعد یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ صرف مدعی یا ملزمان کے وکلاء کو سنا گیا اور جن پر گینگ چلانے کا الزام ہے، ان کو مؤقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا، جو سراسر غلط اور حقائق کے منافی ہے۔ عدالتی کارروائی کی ویڈیوز سے واضح ہوتا ہے کہ ہر سماعت میں جب بھی گینگ کے الزامات زیر بحث آئے، راؤ عبد الرحیم سمیت دیگر متعلقہ افراد کو مکمل موقع دیا گیا کہ وہ اپنی صفائی پیش کریں اور الزامات کا جواب دیں۔ مگر وہ اس حوالے سے کوئی دلیل دینے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ اس لیے کسی بھی پروپیگنڈے کا حصہ بننے کے بجائے عدالتی کارروائی کی اصل ویڈیوز دیکھ کر خود فیصلہ کریں کہ سچ کیا ہے۔
معزز جج کو دی جانے والی دھمکیاں، سوشل میڈیا پر ہونے والی مہمات، اور عدالتی کارروائی کو سیاسی رنگ دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ سچ سامنے آ چکا ہے — اور یہ سچ “بلاسفیمی بزنس” کے چہروں کو بے نقاب کر رہا ہے۔
عوام سے گزارش ہے کہ وہ ایسے مذہبی بیوپاریوں کے پروپیگنڈے میں نہ آئیں۔ یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر مقدمے کی تمام سماعتیں دستیاب ہیں، حقائق دیکھیں، تحقیق کریں اور خود فیصلہ کریں کہ کون سچ بول رہا ہے، اور کون دین کے نام پر دھوکہ دے رہا ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم بطور قوم، اس حساس معاملے میں ہوش سے کام لیں، اور ان بے گناہ افراد کے لیے آواز بلند کریں جو جھوٹے مقدمات میں برسوں سے جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ قانونِ ناموسِ رسالت ﷺ کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے — لیکن اس کے نام پر کاروبار اور سیاسی انتقام ہرگز برداشت نہیں کیا جا سکتا