بغاوت کا پہلا بیج

موضع دیال گڑھ بھارتی پنجاب کے ضلع گورداسپور کا ایک مشہور قصبہ ہے جو بٹالہ سے چار میل کے فاصلے پر واقع ہے موضع دیال گڑھ کے ایک درویش فقیر منش چوہدری میراں بخش چشتی کے گھر 1905 میں ایک بچہ پیدا ہوا بچے کا نام محمد سردار احمد رکھا جب بچہ اس قابل ہوا کہ پڑھ لکھ سکے تو رواج کے مطابق پرائمری سکول میں داخل کرا دیا گیا یہا ں پر اس بچے نے مولانا ذوالفقار علی قریشی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی جو پرائمری اسکول میں صدر مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ گاؤں کی مسجد کے امام و خطیب بھی تھے شواہد یہی بتاتے ہیں کہ اس بچے نے قرآن مجید ناظرہ بھی مولانا قریشی سے پڑھا تھا مولانا موصوف اس بچے پر خصوصی توجہ فرماتے اور پیشانی میں آثار سعادت دیکھ کر اکثر پنجابی میں کہا کرتے ”اوئے جٹّا توں تے وڈا نامور مولوی عمل والا ہو ویں دا”میٹرک کا سالانہ امتحان جو اُن دنوں پنجاب یونیورسٹی لیا کرتی تھی فرسٹ ڈویژن میں پاس کرنے کے بعد سردار احمد نے پٹواری کا امتحان دینے کا ارادہ فرمایا وجہ یہ تھی کہ آپ کے شیخِ طریقت حضرت شاہ سراج الحق چشتی نے بھی پٹواری کا امتحان پاس کر رکھا تھا لہٰذا ان کی پیروی میں آپ نے بھی پٹوار ی کا امتحان پاس کیا لیکن ملازمت نہ فرمائی گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہو گے بعد ازاں جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی تشریف لے گئے اور وہاں پرشہزادہ اعلیٰ حضرت حجۃالاسلام حامد رضا خان اور مفتیِ اعظم ہند الشاہ مصطفٰی رضا خان اور صدرالشریعہ امجد علی اعظمی علیہم الرحمہ کی زیر نگرانی دینی علوم میں مہارت حاصل کی اورسند فراغت اجازت وخلافت کے بعد وہیں درس وتدریس کا اغاز کیا جب تحریک پاکستان کا آغاز ہوا تو نہ صرف اس میں بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا بلکہ اہل سنت کی ملک گیر تنظیم آل انڈیا سُنی کانفرنس کے تحت مسلمانوں کی بھر پور راہنمائی کے فرائض بھی سر انجام دیے ان کو علیحدہ وطن کے حصول کی جدوجہد میں شامل ہونے کی طرف راغب کیا تاکہ منزل جلد از جلد حاصل ہو ان جیسے بزرگوں کی انتھک محنت جدوجہد اور قائد اعظم کی غیر متزلزل قیادت میں پاکستان کا جلد حصول ممکن ہوا جمعۃ الوداع (27رمضان المبارک 1366ھ/ 15 اگست 1947ء) کا خطبہ آپ نے اپنے آبائی قصبہ دیال گڑھ میں دیااس موقع پر آپ نے قیامِ پاکستان پر انتہائی مسرت کا اظہار فرماتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کیا اور لوگوں کو نئے اسلامی ملک کے قیام پر مبارکباد دی جولائی1949ء میں آپ ہجرت فرما کر فیصل آباد تشریف لے آئے اسی سال آپ نے تشنگان علم کی پیاس بجھانے کے لیے ایک درسگاہ جامعہ رضویہ مظہر الاسلام کا آغاز فرمایا آپ کے اس اعلان کے ساتھ ہی پورے پاکستان سے مشتقان علم جوق در جوق آنے لگے یکم شعبان المعظم 1382ھ / 29 دسمبر 1962ء کی شب کو سورج ڈوبا اور صبح ہوتے ہوتے دنیائے علم و حکمت میں اندھیرا پھیل گیا یہ علم و حکمت کا بحر بے کراں یہ علم کا آفتاب و ماہتاب کوئی اور نہیں محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد قادری صاحب تھے جن کی وجہ سے حدیث کا علم ایک سند کے ساتھ پاکستان میں پہنچا ان کے شاگردوں میں صرف دو نام ہی کافی ہیں راولپنڈی والے پیر حسین الدین شاہ صاحب اور چکوال والے سید زبیر شاہ صاحب آپ کے ہی شاگرد ہیں آپ کے ایک فرزند صاحب زادہ فضل کریم صاحب جمیعت علما پاکستان کے صدر اور سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین بھی رہے وہ 1993 اور1997 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی اور 2002 اور 2008 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور وزیر بھی رہے حاجی فضل کریم صاحب کے بیٹے اور
محدث اعظم پاکستان کے پوتے صاحبزادہ حامد رضا ہیں جو اج کل سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین ہیں اور قرآن اکیڈمی کے بھی چیئرمین رہے 2014 کے دھرنے میں ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے شانہ بشانہ کھڑے رہے جنھوں نے تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ پچھلی گورنمنٹ کے مذاکرات کامیاب کرانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا اتنا لمبا تعارف کرانے کی وجہ ایک ویڈیو پیغام بنا وہ ویڈیو پیغام صاحبزادہ حامد رضا صاحب کا ہے اس ویڈیو نے جلا کر رکھ دیا جس میں انہوں نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے انہوں نے سب سے خطر ناک بات یہ کہی کہ قتل کے منصوبہ ساز سن لیں اور اچھی طرح جان لیں کہ میرے قتل کے بعد میرے ورثاء قصاص لیں گے اور ضرور لیں گے اور وہ قصاص عدالتی نہیں ہو گا کیونکہ ہم نے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے کیس کا حشر دیکھ لیا ہے بلکہ بدلہ ہو گا جسے میرے ورثاء خود لیں گے کوئی عدالتی کیس نہیں ہو گا سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہمارے ادارے کس سمت جارہے ہیں اگر بانیان و محبان پاکستان جن کے خون سے یہ گلشن سینچا گیا تھا جن لوگوں نے اپنی عزت جان مال کی قربانیاں پیش کر کے یہ ملک حاصل کیا تھا اور اپنے آباء واجداد کے آثار سے رشتے ناطے توڑ کر یہاں ہجرت کر آئے تھے آج ان کی اولاد کھلے اور واشگاف الفاظ میں یہ کہنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ ہمیں اپنے آئین وقانون اور اداروں پر اعتماد نہیں رہا اب ہم اپنا راستہ خود بنائیں گے دوسرے لفظوں میں انہوں نے بغاوت کا اعلان کر دیا ہے اگر اس نظام کے ستائے ہوئے لوگ جمع ہونے شروع ہو گے تو کہیں بغاوت کا یہ پہلا بیج دیکھتے ہی دیکھتے ایک گھنے اور تناور درخت کی شکل اختیار نہ کر لے اگر ایسا ہو گیا تو پھر وہ ریلا اس نظام کو بہا کر لے جائے گا اس بغاوت کے پنپنے کی وجہ ہماری ریاست کے تمام ادارے ہیں جو امراء کی انگلیوں پر ناچتے ہیں اور خاص کر عدالتیں اس ساری صورت حال کو دیکھ کر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ حقیقتاً آج ہم نے ابوالکلام آزاد اور ان کے ہم نواؤں کے خدشات کو درست ثابت کر رہے ہیں یہ آئین وقانون سے کھلواڑ دیکھ کر بانیان پاکستان کی روحوں پر کیا گزر رہی ہو گی اگر آج بانیان پاکستان کی ہی اولاد بغاوت پر اتر آئی ہے تو ہمارے تمام اداروں کو سوچنا ہو گا آیا ہم نے اسی روش پر چل کر بغاوت کے بیج کو پروان چڑھانا ہے یا بغاوت کے اسباب کو ختم کر کے اس سوچ کو یہیں دفن کر دینا ہے فیصلہ مقتدر قوتوں نے کرنا ہے بعض اوقات فیصلوں کی تاخیر سب کچھ برباد کر دیتی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں