حکومتِ پنجاب کی جانب سے بسنت کے تہوار کو دوبارہ منانے کی اجازت نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو محض ایک تفریحی سرگرمی نہیں، بلکہ انسانی جانوں کے تحفظ سے جڑا ہے۔ ہماری گلیوں، بازاروں اور چھتوں پر اُڑتی رنگ برنگی پتنگیں اگرچہ خوشی کا منظر پیش کرتی ہیں، مگر ان کے ساتھ لٹکتی دھاتی ڈور اکثر ایسی کہانیاں چھوڑ جاتی ہے جنہیں یاد کر کے دل دہل جاتا ہے۔
واپڈا کے کھمبوں اور تاروں میں یہ قاتل ڈور لپٹ کر بارہا قیمتی جانیں نگل چکی ہے۔ موٹر سائیکل سواروں کا گلا کٹ جانا، معصوم بچوں کا زخمی ہونا، فضا میں الٹی ہوئی خوشی کا ماتم یہ سب کچھ ہماری اجتماعی یادداشت کا حصہ ہے۔ کیا کوئی بھی تہوار اتنا ضروری ہو سکتا ہے کہ اس کے بدلے میں انسانی جان داؤ پر لگا دی جائے؟ یقیناً نہیں۔ پھر ایسے فیصلوں کی منطق کیا ہے؟
یہ بھی حقیقت ہے کہ بسنت کوئی مذہبی تہوار نہیں جس کا منایا جانا لازم ہو۔ یہ ایک ثقافتی روایت ہے، اور ہر روایت اسی وقت تک قابلِ احترام ہے جب تک وہ معاشرے کے افراد کی زندگیوں کو خطرے میں نہ ڈالے۔ حکومت کا کام عوام کو خوشیاں دینا ضرور ہے، مگر ان خوشیوں کی قیمت انسانی خون نہیں ہونی چاہیے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے فیصلے اکثر سیاسی مشیروں کے دباؤ میں یا مخصوص طبقات کی خوشنودی کی خاطر کیے جاتے ہیں۔ یہ تاثر تقویت پکڑ رہا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ مریم نواز کے اردگرد موجود بعض مشیر ایسے مشورے دے رہے ہیں جو حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ بسنت کے دوران کوئی جانی نقصان ہوا، تو اس کی ذمہ داری یقیناً حکومت پر ہی آئے گی اور اس کا سیاسی بوجھ ناقابلِ برداشت ہوگا۔ عوام نہ صرف سوال پوچھیں گے بلکہ جواب بھی طلب کریں گے۔
سوال یہ ہے کیوں ایسا فیصلہ کیا جائے جس کے نتیجے میں کبھی بھی انسانی جان کا اندیشہ پیدا ہو سکتا ہے؟ کیا ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا؟ کیا ہم ایک بار پھر وہی غلطی دہرانے جا رہے ہیں جو پہلے بھی خون اور آنسو لے چکی ہے؟
حکومت کو چاہیے کہ فیصلے عوامی مفاد، انسانی جان کے تحفظ اور ذمہ دارانہ انتظامی حکمتِ عملی کی بنیاد پر کرے۔ اگر بسنت کو بحال کرنا ہی ہے تو اس کی حفاظتی تیاری ایسی ہو کہ کوئی اندیشہ باقی نہ رہے مگر پاکستان جیسے ملک میں جہاں ٹریفک قوانین تک مکمل نافذ نہیں ہو پاتے، دھاتی ڈور پر پابندی اور اس کی نگرانی کس حد تک ممکن ہے؟ حقیقت پسندانہ جواب ہمارے سامنے ہے۔
وقت ہے کہ حکومت جذباتی فیصلوں کے بجائے ہوش مندی سے کام لے۔ تہوار اپنی جگہ، مگر انسانی جان کی حرمت سب سے پہلے ہے۔ خوشیاں اس وقت تک معتبر ہیں جب تک وہ کسی کے گھر کا چراغ نہ بجھا دیں۔
آخر میں یہی سوال باقی رہتا ہے
کیا بسنت ضروری ہے یا انسان کی زندگی؟.
تحریر : اقبال زرقاش