441

برائی کا سدباب

کہتے ہیں ایران کا مشہور بادشاہ نوشیرواں‘جو اپنے عدل و انصاف کے باعث نوشیروان عادل کہلاتا تھا۔ ایک بار شکار کے لیے گیا شکار گاہ میں اس کیلئے کباب تیار کیے جار ہے تھے۔ کہ اتفاق سے نمک ختم ہو گیا شاہی باورچی نے ایک غلام سے کہا کہ قریب کی بستی میں جا اور وہاں سے نمک لے آ۔بادشاہ نے یہ بات سن لی۔ اس نے غلام کو قریب بلایا اور سے تاکید کی کہ قیمت ادا کیے بغیر نمک ہر گز نہ لانا۔ غلام بولا، حضور والا! ایک ذرا سے نمک کی کیا بات ہے۔ کسی سے مفت لے لوں گا تو کیا فرق پڑیگا۔نوشیرواں نے کہا ضرور فرق پڑیگا۔ یاد رکھو! ہر برائی ابتدا میں ایسی ہی معمولی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن پھر وہ بڑھتے بڑھتے اتنی بڑی بن جاتی ہے کہ اسے مٹانا آسان نہیں ہوتا ہے بغیر حق کے جو سلطاں کرے وصول اک سیب غلام اسکے جڑوں سے اکھیڑ لیں گے درخت جو بادشاہ کبھی مفت پانچ انڈے لے سپاہی اسکے کرینگے ہزار مرغ دولخت سبق: حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ درس دیا ہے کہ کسی بھی برائی کو معمولی خیال نہیں کرنا چاہیے۔ معمولی برائی ہی بڑھ کر بہت بڑی برائی بن جاتی ہے۔ خاص طور پر حکمرانوں کو تو اس سلسلے میں بہت زیادہ احتیاط بر تنی چاہیے۔ کیونکہ انکے ماتحت برائی میں ان کی تقلید زیادہ کرتے ہیں۔ (الیاس نذیر’روات)

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں