بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال

ساجد محمود
وفاقی دارالحکومت میں مذہبی جماعت کے دھرنے کے خاتمے کے بعد حکومتی حلقوں میں اس دھرنے کے پس پردہ کرداروں کے حوالے سے مختلف نوعیت کی افواہوں کا سلسلہ جاری تھا تاہم دھرنے کے شرکاء میں نوٹوں کی تقسیم سے جنم لینے والے خدشات کا اس وقت خاتمہ ھوا جب آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کا سینٹ میں ایک وضاحتی بیان سامنے آیا تھا جس میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی خواہشات کے مطابق فوج کے کردار ادا کرنے کی بات کی گئی تھی مگر اسکے باوجود میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدلیہ اور فوج پر تندوتیز بیانات کاسلسلہ جاری ہے مذہبی و روحانی شخصیات کی جانب سے دھمکی آمیز رویہ بھی حکومت کیلئے دردِ سر بنا ھوا ہے تاہم میاں محمد نواز شریف نے پارٹی کو انتشاری کیفیت سے بچانے کیلئے میاں محمد شہبازشریف کو مستقبل میں جو وزیراعظم مقرر کرنے کا عندیہ دیا ہے ان حالات میں یہ فیصلہ پارٹی کو درپیش مشکلات میں کمی کا سبب بنے گا چونکہ میاں شہبازشریف کے فوج کے ساتھ خوشگوار قریبی روابط قائم ہیں جس سے حالیہ فوج کیساتھ تعلقات بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور عین ممکن ہے کہ شہباز شریف موجودہ جاری کشیدہ صورت حال میں اپنے خاندان کو بچانے کیلئے کوئی درمیانی راہ نکالنے میں کامیاب ھو جائیں انکا حالیہ دور سعودی عرب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور بہت جلد میاں محمد نواز شریف کی سعودی عرب روانگی متوقع ہے دوسری طرف پانامہ مقدمے میں اپنے دفاع میں میاں محمد نواز شریف عدالت میں کوئی دستاویزی ثبوت فراہم کرنے میں ابھی تک بظاہر ناکام نظر آتے ہیں تو ان حالات میں عدالت کی جانب سے نرم گوشے کی توقع رکھنا محض خام خیالی ھوگی بہر کیف پانامہ کے حوالے سے حتمی عدالتی فیصلہ آنے کے بعد ہی اصل صورتحال واضح ہو گی چوہدری نثار علی خان کے بطورِ وزیرِ اعلیٰ پنجاب منتخب ھونے کے امکانات کافی محدود ہے انکی طرف سے محمد نواز شریف کی طرف سے جاری احتجاجی سیاست پر کھل کر تنقید کرنے کی بنا پر وقت آنے پر پارٹی کے اندر سے انکے خلاف بغاوت کی صدائیں بھی بلند ھونے کے آثار دکھائی دیتے ہیں تاہم بعض ناقدین میاں شہباز شریف کو مستقبل میں وزیراعظم منتخب کرنے کے میاں محمد نواز شریف کے فیصلے کو ایک سیاسی حکمتِ عملی قرار دے رہے ہیں جسکا مقصد پارٹی کو متحد رکھنا ہے عدالت کی جانب سے حدیبیہ پیپرز مل کے کیس کو دوبارہ کھولنے کی استدعا مسترد کیے جانے کے بعد شہبازشریف کو وقتی ریلیف مل گیا ہے لیکن اب دیکھنا یہ کہ سانحہ ماڈل ٹاون کے حوالے سے علامہ طاہر القادری اور دیگر ہم خیال سیاسی جماعتوں کی جانب سے متوقع احتجاجی تحریک انکے کے سیاسی مستقبل میں کس حد تک مشکلات کا سبب بن سکتی ہے اسکے علاوہ ختمِ نبوت کے قانون میں ترمیم کی بنا پر بریلوی مسلک کا ووٹ جو ہمیشہ مسلم لیگ کے حصے میں آتا تھا اب اس میں کمی واقع ھوگی اگر سابق وزیراعظم عدلیہ مخالف تحریک کا عملی طور پر آغاز کرتے ہیں تو یہ عدلیہ کے حوالے سے ملک کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ھو گا اس سے خود انکے لیے مشکلات کے علاوہ جمہوریت کا تسلسل بھی خطرہ میں پڑ سکتا ہے لہذا بہتر ھو گا کہ وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا قانونی محاذ پر دفاع کریں دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے سیاسی سرگرمیوں کی شروعات ھو چکی ہیں اور انتخابات کے حوالے سے سیاسی گٹھ جوڑ میں مصروف ہیں جوکہ جمہوری عمل کے تسلسل کیلئے ایک حوصلہ افزا بات ہے قومی سلامتی کے ادارے یعنی فوج اور عدلیہ ملک میں جمہوری عمل کو جاری رکھنے کے حامی ہیں اسلیئے حکمران جماعت کو اداروں کیساتھ تصادم اور ٹکراؤ کی پالیسی کو ترک کردینا چاہیے تاہم موجودہ سیاسی منظرنامہ میں آنے والے دنوں میں حیران کن تبدیلیوں کے رونما ھونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا جس میں میاں محمد نواز شریف پر قائم مقدمے کا ڈراپ سین بھی متوقع ہے اور اس میں بین الاقوامی طاقتوں کا کردار بہت اہم ھو گا جس میں فوج عدلیہ اور دیگر سیاسی قیادت کو اعتماد میں لے کر قومی مفاہمتی پالیسی وضع کی جائے گی کیونکہ عوامی سطح کے ایک مقبول سیاسی لیڈر کو بدعنوانی کے تحت قائم کیے گئے مقدمہ میں عدالت کی جانب سے سزا سنائی جانے کے بعد ملک کے اندر پابندِ سلاسل رکھنا ایک مشکل مرحلہ ھو گا لہذا ماضی اور حال کے تجربات کو مدنظر رکھتے ھوئے اس معاملے کے حل کیلئے معقول درمیانی راستے کا انتخاب کیا جائے گا جس میں جنرل پرویز مشرف کی وطن واپسی اور ان پر دائر مقدمات کا خاتمہ بھی شامل ہے اور ان تمام الجھے معاملات کو سلجھانے میں سابق آرمی چیف راحیل شریف کلیدی کردار ادا کریں گے اگر فریقین کے مابین معاملات طے پا گئے تو پھر ملکی سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ھو جائے گا یاد رہے اکتوبر 1999 میں جنرل مشرف کی فوجی بغاوت میں محمد نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد طیارہ سازش مقدمہ کے تحت عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم فوج کے ساتھ خفیہ معائدہ طے پانے کے بعد انہیں رات کی تاریکی میں سعودی عرب روانہ کر دیا گیا تھا اور دوبارہ قومی مفاہمتی پالیسی کے تحت 2007 کو شریف خاندان کی دائر درخواست پر فیصلہ صادر فرماتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے انکی وطن واپسی کا حکم دیا تھا اب لگتا ایسے ہے کہ اسی تاریخ کو دوہرایا جائے گا اور نئی قومی مفاہمتی پالیسی متعارف ھو گی جسکے خدوخال ماضی کی نسبت مختلف ھونگے

اپنا تبصرہ بھیجیں