بجلی بلوں میں اضافہ‘ شہری سٹرکوں پر نکل آئے

وفاقی حکومت کی جانب سے حالیہ گھریلو صارفین اور کمرشل بجلی کے بلز میں ہوشربا اضافے نے مہنگائی کی چکی میں پسے عوام پر بجلی گرا دی ہے بجلی بلوں میں بنیادی ٹیرف میں 100گنا اضافے اور اسکے علاوہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں فی یونٹ 11روپے مزید بلوں میں شامل کرنے کے خلاف صارفین سڑکوں پر نکل آئے ہیں

تاہم وزارتِ توانائی کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر 200 یا اُس سے کم یونٹ استعمال کرنے والوں کو معافی ملے گی۔وزیر اعظم شہباز شریف نے قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچنے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں بھی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ معاف کرنے کا اعلان کیا ہے

اس سے ایک کروڑ 73 لاکھ صارفین مستفید ہوں گے جبکہ ٹیوب ویل صارفین پر بھی اس کا اطلاق ہوگا دوسری طرف میڈیا رپورٹ کے مطابق 24 اگست کوبجلی کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سے متعلق لاہور ہائیکورٹ نے لیسکو صارفین کو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے سوا باقی بل جمع کرانے کا حکم دیا ہے

لاہور ہائیکورٹ میں بجلی بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سے متعلق درخواستوں پرسماعت ہوئی ہے جسٹس شاہد وحید نے محمد صادق سمیت دیگر کی درخواستوں پرسماعت کی لاہور ہائیکورٹ نے لیسکو صارفین کو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے سوا باقی بل جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے وفاقی حکومت اور لیسکو سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے 14 ستمبر کو جواب جمع کرانے کا حکم بھی دیا ہے درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کو غیر قانونی قرار دیکر کالعدم قرار دے تاہم تاجروں کے احتجاجی دباؤ اور ہڑتال کی دھمکی کے پیش نظر حکومت نے چھوٹے بڑے دوکانداروں پر ماہانہ چھ ہزار روپے اضافی سیلز ٹیکس کا فیصلہ اب واپس لے لیا ہے

مگر گھریلو صارفین محض حکومتی طفل تسلیوں سے تنگ آکر بجلی کے بلز پر اضافی ٹیکس واپس نہ لینے کی بنا پر سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں گزشتہ پیر کے دن مندرہ اور گوجرخان میں بجلی کے بلوں میں ٹیکس اضافے کے خلاف شدید عوامی ردعمل دیکھنے میں آیا تھا جبکہ منگل کے دن روات کے مقام پر بجلی کے بلز میں ظالمانہ ٹیکس کے خلاف اہلیان علاقہ نے احتجاج کرتے ہوئے

جرنیلی سڑک بند کر دی تھی کلرسیداں بازار میں بھی اسی دن تاجروں اور عوام نے مل کر علامتی احتجاج ریکارڈ کرایا تھا جس میں بجلی کے بلوں میں ٹیکس کی صورت میں اضافے کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا بجلی بلوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کی کال حکومت کی کسی مخالف جماعت کی طرف سے نہیں دی گئی تھی بلکہ مہنگائی سے پریشان حال عوام خود گھروں سے باہر نکل آئے تھے یاد رہے

حکومت نے حال ہی میں گھریلو صارفین سمیت چھوٹے بڑے دوکانداروں پر ماہانہ چھ ہزار روپے اضافی سیلز ٹیکس عائد کر دیا تھا تاہم تاجر تنظیموں کے پرزور احتجاج پر کمرشل ٹیکس کو معطل کردیا گیا ہے مگر گھریلو صارفین کو اس معاملے میں حکومت کی جانب سے استثنیٰ نہیں ملا اس ماہ جوکمرشل بلز آئے ہیں اس میں پچپن فیصد ٹیکس لاگو کیا گیا تھا اگر کسی کا بل دس ہزار روپے ہے

تو اس میں پندرہ ہزار روپے ٹیکس کا اضافہ کرکے ٹوٹل بل پچیس ہزار روپے کر دیا گیا تھا بدقسمتی سے ہمارے ملک میں امیر اور غریب کیلیے الگ الگ ضابطوں کا تعین کیاجاتا ہے ایک طرف ملک کی اشرافیہ ہے جنہیں ہزاروں بجلی کے یونٹس استعمال کرنے کے باوجود بل سے استثناء حاصل ہے

جبکہ دوسری طرف مزدور جو سارا دن اپنا خون پسینہ بہا کر محنت مزدوری کرتا ہے محض اس لیے کہ اسکے گھر کا چولہا کہیں ٹھنڈا نہ پڑ جائے مگر حالیہ ظالمانہ بجلی ٹیکس کا بوجھ ڈال کر موجودہ حکومت نے مزدور طبقے کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھیننے کی کوشش کی ہے بجلی بلوں میں
3گنا اضافے کیخلاف ملک کے دیگر شہروں کی طرح ضلع راولپنڈی کے مختلف شہر بازاروں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اگر ہم اپنے بجلی کے بل کا بغور جائزہ لیں تو اس کا 30 سے 32 فیصد حصہ ٹیکسز پر مشتمل ہے جب یونٹ کی قیمت بڑھتی ہے اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ میں اضافہ ہوتا ہے تو ساتھ ہی جنرل سیلز ٹیکس بھی بڑھتا ہے

بجلی کے بل پر لگنے والے ٹیکسز میں 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس‘الیکٹریسٹی ڈیوٹی اور انکم ٹیکس شامل ہوتے ہیں آئیسکو ترجمان کا یہ کہنا ہے کہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ میں اضافہ دراصل مئی جون میں مہنگے فرنس آئل سے پیدا ہونے والی بجلی کے باعث ہوا ہے جو اگست کے بعد بتدریج کم ہوتا چلا جائے گاحکومت کو چاہیے کہ غریب عوام کا کچھ خیال کرے اور گھریلو صارفین کے بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس کو فوری طور پر واپس لے کیونکہ موجودہ مہنگائی کے طوفان نے غریب عوام کی پہلے ہی کمر توڑ دی ہے

اور بجلی کے بلز میں ٹیکس کے اضافے سے عوام میں مرکزی حکومت کے خلاف کافی غم وغصہ پایاجاتا ہے تاہم اگر بجلی پر عائد ٹیکس میں چھوٹ نہ دی گئی تو عوام کے پاس صرف دو ہی راستے بچتے ہیں ایک یہ کہ خود کشیاں کرلیں یا پھر عوام دشمن حکمرانوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں۔اس دنیا فانی میں امیر کے غلبے کے زیراثر غریب کی زندگی ہر دور میں معاشی الجھنوں اور ٹھوکروں سے جنگ لڑتے چلی آرہی ہے

مگر یہ کوئی نئی روایت نہیں بلکہ اس سے قبل بھی قرض اتارو ملک سنواروُروٹی، کپڑا اور مکان کے پرکشش نعروں کا انتخاب کیا گیا تاہم آنکھوں میں نئی صبح کی امید لیے جسطرح وہ وقت ریت کی طرح غریب عوام کے ہاتھوں سے سرک کر ماضی کا حصہ بن گیا ہے

اسی طرح موجودہ حالات میں بھی غربت کی چکی میں پستے اور زندگی کی بقا کی جنگ لڑتے ایک مرتبہ پھر غریب عوام کی زندگی کو خوشحال بنانے کے اشرافیہ کے دعوے ماضی کا حصہ بن جائیں گے مگر سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ملک کے جمہوری نظام میں غریب کی زندگی میں کبھی خوشحالی نہیں آئے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں