باکردار شخصیت راجہ جاوید اقبال مرحوم و مغفور

عبدالستارنیازی/چراغ گولڑہ حضور نصیر ملت ؒ نے کیا خوب کہا تھا ”جیتے جی قدر بشر کی نہیں ہوتی پیارے، یاد آئے گی تجھے میری وفا میرے بعد“ محترم قارئین کرام! کچھ لوگ ایسے انمول نگینے ہوتے ہیں جن کا وجود اس دنیا میں بھی لوگوں کیلئے باعث فائدہ ہوتاہے اور جب وہ اس دنیا سے چلے جائیں تب بھی وہ فائدے تقسیم کرتے ہیں، ہمارا پیارا دوست اور بھائی راجہ جاوید اقبال اپنی فیملی، عزیز، رشتہ داروں اور دوستوں کو روتا چھوڑ کر اچانک وہاں چلا گیا جہاں سب نے جانا ہے، صحافت کی تو مفاد و لالچ کے بغیر کی اور اس وقت صحافت کی جب صحافی کے نام سے لوگوں کی ٹانگیں کانپتی تھیں، وہ واقعہ سنایا کرتے تھے کہ سلطان نعیم کیانی تحصیل ناظم تھے جب میں روزنامہ جناح کا گوجرخان سے نمائندہ تھا، دفتر سے فون آیا کہ تحصیل ناظم کا انٹرویو کرنا ہے اور اس کاپورا پیج چھاپیں گے، میں نے سلطان نعیم کیانی کو فون کیا اور انہیں ساتھ دفتر چلنے کو کہا، علی الصبح سلطان نعیم کیانی تیار ہو گئے اور ہم روزنامہ جناح کے دفتر پہنچے، سلطان نعیم کیانی پورے راستے بہت پریشان تھے کہ نہ جانے کون کون سے سوالات ہوں گے اور اس انٹرویو کا مجھے کتنا خرچہ اٹھانا پڑے گا اور ہو سکتا ہے کچھ میرے خلاف پرنٹ ہوگیا تو میں کہاں جاؤں گا، بہرحال انٹرویو ہو گیا تو سلطان نعیم کیانی نے میرے کان میں سرگوشی کی کہ کتنے پیسے دینے پڑیں گے، میں نے انہیں کہا کہ میں پتہ کرتاہوں، جب انچارج سے پتہ کیا تو انہوں نے کہا کہ کل300/400 اخبار کابنڈل آئے گا اس کی پیمنٹ دے دیں، سلطان نعیم کیانی نے خوشی خوشی پیسے دیئے جن کی انہیں باضابطہ رسید بھی ملی، اگلے دن جب سلطان نعیم کیانی نے اخبار دیکھا تو ان کی خوشی کی انتہا نہیں تھی، یعنی راجہ جاوید اقبال نے صحافتی شعبے میں پیسے کو اہمیت نہیں دی بلکہ صحافت برائے خدمت کی،حالانکہ وہ سلطان نعیم کیانی سے ہزاروں روپے لے کر اپنے پاس رکھ سکتے تھے اور صرف اخبار کے پیسے ادارے کو دے دیتے لیکن ان کے ضمیر نے یہ گوارا نہ کیا، اسی طرح تعلیم کے شعبہ میں ان کے ہزاروں سٹوڈنٹس ہیں جن کو زیورتعلیم سے آراستہ کیا اور ملک و قوم کی خدمت کی، شعبہ صحافت و تعلیم کے علاوہ سیاست، سماجی معاملات اور مذہبی معاملات میں بھی ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، ڈاکٹر طاہرالقادری سے وابستگی اور منہاج القرآن کی تاحیات رفاقت ان کو مذہبی حوالے سے ممتاز کرتی ہے، قبر پر ڈاکٹر طاہرالقادری کی جانب سے پھولوں کا گلدستہ بھی رکھا گیا، منہاج القرآن اور اس مشن کا حقیقی درد رکھنے والی شخصیت اس جہان فانی سے چلی گئی، راقم کیساتھ ان کا تعلق خالص روحانی تھا، میرے شیخ کامل سیدنا نصیر ملت ؒ سے انہیں دیوانگی کی حد تک عشق تھا، ثناء خواں سید زبیب مسعود شاہ بخاری سے دلی چاہت تھی اور ان کے بیٹے کے بقول کہا کرتے تھے کہ زبیب شاہ جی کو گھر بلا کر سنیں گے اور خوب سنیں گے، بیٹے کی شادی پر محفل کا ارادہ تھا، گاؤں میں اپنے الگ مکانات بنانے کا ارادہ کر رکھا تھا اور نہ جانے کیا کچھ کرنے کی آرزواور تمنا تھی مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا، گزشتہ جمعہ کے دن میرے دفتر آئے، ہم اکٹھے پریس کلب بھی گئے لیکن دل و دماغ میں دور دور تک یہ بات نہ تھی کہ ان کا اگلا جمعہ اگلے جہان میں ہوگا، 13دسمبر2020؁ء کو میرے گھر محفل ہوئی تو اپنے بیٹے روحان کیساتھ بطور خاص تشریف لائے،اس سے اگلے دن جب میں نے سب کا نام لکھ کر شکریہ ادا کیا کہ آپ سب لوگ میرے گھر محفل میں تشریف لائے اور محفل کو چار چاند لگا دیئے تو غلطی سے ان کا نام رہ گیا، جاوید بھائی نے جب پوسٹ پڑھی تو مجھے انباکس میسج کیا کہ ہم بھی آئے تھے، میں بہت شرمندہ ہوا اور ان کا نام لکھ کر ان کا جائز گلہ دور کیا، زندگی کے سفر میں اس شخص کیساتھ بہت ساری باتیں ہوئیں بہت سارے پلان بنائے، ابھی تو ہم نے جنوبی پنجاب میں اولیائے کرام کے مزارات پر حاضری بھی دینا تھی، ابھی تو انہوں نے اپنے بیٹوں کی شادی کرنا تھی، اپنے بیٹے روحان کو کہتے تھے کہ بیٹا تمہیں مجھے سنبھالنے کی ضرورت نہیں پڑے گی میں چلتے پھرتے رب کے حضور پیش ہو جاؤں گا اور بالکل ایسا ہی ہوا، راجہ جاوید اقبال کی آبائی گاؤں بورگی بینس میں خاندانی قبرستان میں تدفین ہوئی تو یہ بھی عجیب حسن اتفاق ہے کہ اپنی ننھی بیٹی شہزادی ایمن زھرا مرحومہ کے قدموں کی جانب جگہ ملی، یعنی اشارہ اس طرف ہے کہ جنت کے پھول ایک ساتھ رہیں گے، یہ بھی کیا خوش نصیبی اور حسن اتفاق ہے کہ جس دن وصال ہوا اس کی رات اور جس دن جنازہ ہوا وہ دن شہزادی کونین سیدۃ النساء العالمین سیدہ زہرا پاک سلام اللہ علیہا کی ولادت کا دن تھا، گویا زبان حال سے کہا جا رہا تھا ”میں گدائے درِ زہرا ہوں بتانا لوگو۔ ہمیشہ پنجتنی نسبت ہی میرے کام آئی“، اہل بیت اطہار سے والہانہ محبت ان کی زندگی کااثاثہ تھی، شہادت کی موت کی تمنا ہر کوئی کرتا ہے مگر ایسی موت کسی کسی کو ہی نصیب ہوتی ہے، بیٹا روحان بتاتا ہے کہ دو تین ماہ سے والد گرامی کا یہ معمول بن چکا تھا کہ ہمہ وقت باوضو رہتے تھے اور سورۃ الکوثر پڑھتے رہتے تھے، یہ خوش نصیبوں کی نشانی ہوتی ہے، شعبہ صحافت میں ان کی خدمات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا رہے گا، دوستوں کے اعتماد کا یہ حال تھا کہ پوٹھوہار پریس کلب کے حال ہی میں بلامقابلہ فنانس سیکرٹری منتخب ہوئے تھے، ریجنل یونین آف جرنلسٹس تحصیل گوجرخان کے بانیان میں ان کا شمار ہوتا تھا اور سال 2021؁ء میں ریجنل یونین آف جرنلسٹس تحصیل گوجرخان کے انتخابات میں حصہ لینے کے ارادے کے حوالے سے ان سے جب بات ہوئی تو کہنے لگے ضرور حصہ لیں، میری فل سپورٹ آپ کے ساتھ ہے، پوٹھوہار پریس کلب کا ممبر بنا تو بطور خاص میسج کر کے کہا کہ میری فوٹو لگا کر مبارک باد کی پوسٹ بنا دیں، قارئین کرام! باتیں اتنی ہیں کہ لکھ لکھ کر ہاتھ تھک جائیں گے مگر باتیں ختم نہیں ہوں گی، ہمارا دوست، ہمارا بھائی، ہمارا رازدار، دوستوں میں وجہ دوستی، ہمارا چین اور قرار آج منوں مٹی تلے جا سویا ہے، اور حضرت خواجہ غلام فرید آف کوٹ مٹھن کے یہ دو مصرعے صادق آرہے ہیں ”غلام فریدا میں تاں ایویں روواں، جیویں وچھڑی کونج قطاراں“، بس اب ہمہ وقت یاد سجن کی آتی ہے، آج ان کا ختم قل ہے اور ان کے ختم قل کی تقریب میں ان کے پسندیدہ ترین ثناء خواں سید زبیب مسعود حاضری پیش کررہے ہیں،اللہ پاک غریق رحمت کرے اور جنت الفردوس میں حسنین کریمین علیہم السلام کی شفقتوں کے سائے میں رکھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں