باقی صدیقی مرحوم ادب کا عظیم سرمایہ

؎تم زمانے کی راہ سے آئے
ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا
دبستانِ پوٹھوہار، اسلام آباد اور باقی صدیقی فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام باقی صدیقی مرحوم کی اکیاونویں (51ویں) برسی کے موقع پر سیمینار کا انعقاد 8جنوری 2023کو پنجاب آرٹس کونسل راولپنڈی میں منعقد ہوا۔ جسکی صدارت پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری کے حصے میں آئی۔ مہمانانِ خصوصی نسیمِ سحر،جبار مرزا،ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی‘ مہمانانِ اعزاز: شریف شاد، ڈاکٹر کوثر محمود، تعارفیہ جمال زیدی، نعت رسول مقبولؐ شاہد جمیل منہاس، منظوم ہدیہ ئتحسین محترمہ فرخندہ شمیم، خصوصی شرکت محترمہ عذرا یاسمین، شاہد لطیف ہاشمی، اظہارِ خیال شہزاد اظہر،انجم حفیظ قریشی،ساجد ہاشمی اور ڈاکٹر شاذیہ اکبر، بدیعہ ہاشمی اور نظامت فرزند علی ہاشمی نے فرمائی۔ باقی صدیقی شاعر پوٹھوہار تھے نہیں بلکہ ہیں اور آج بھی ہمارے ارد گرد خوشبو لیے گھوم پھر رہے ہیں۔ باقی صدیقی کی قبر پر لوگوں کا ہجوم یہ باور کرواتا ہے کہ جو لفظ دل کی روشنائی سے کاغذ پر وطن کی مٹی میں گندھا ہوا لہو قلم کے سینے میں اتار کر لکھے جائیں وہ تا قیامت تک تاریخ میں سنہرے ابواب بن کر یہ باور کرواتے ہیں کہ باقی صدیقی واقعی ایک مرد قلندر تھا۔ باقی صدیقی نے جب یہ سنا کہ پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے تو باقی صدیقی نے اس وقت زندگی سے ہارمان لی اور اچانک گر پڑے۔ بس اسکے بعد ان کے الفاظ جو میں نے اپنے کانوں سے تو نہیں سنے مگر پروفیسر مقصود جعفری محترم جبار مرزا محترم زاہد حسن چغتائی اور فرزند علی ہاشمی

باقی صدیقی

کی زبانی سنے تو میں خوفزدہ سا ہو کر رہ گیا۔ اور وہ الفاظ یہ تھے۔
”سنا ہے پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے“
بس یہ جملہ زبان سے ادا ہوا اور پھر ہوش نہ رہی کہ وہ پاکستان میں ہیں یا سکوت ڈھاکہ کے بند کمرے میں قید ہو چکے ہیں۔ دبستان پوٹھوہار اسلام آباد اور باقی صدیقی کے اشتراک سے انکی 51ویں برسی کی اس خوبصورت مگر آنسوؤں میں بھیگی محفل نے زندہ رہنے کا سلیقہ اور طریقہ سمجھا دیا۔ باقی صدیقی نے پوٹھوہاری شاعری میں وہ مقام حاصل کیا جو آج تک کسی کے حصے میں نہ آ سکا۔ صدیقی صاحب نے پنجابی اور اردو میں بھی خوبصورت نگینے نچھاور کئے۔
داغ دل ہمکو یاد آنے لگے۔ لوگ اپنے دینے جلانے لگے۔ یہ گانا اس وقت اقوام عالم میں روشن ستارے کی طرح چمک رہا ہے۔ اس طرح کے بے شمار گیت باقی صدیقی نے اپنے سیدھے سادے قلم سے لکھے اور ان گیتوں نے سننے والوں کو۔سیدھا کر کے رکھ دیا۔ مگر خود ملک پاکستان کیلئے ہچکولے کھاتے رہے۔ باقی صدیقی نے درس و تدریس کا شعبہ اپنایا۔ اس کے بعد پاکستان آرمی کی زینت بنے اور آخر میں ریڈیو پاکستان میں خوشبو بکھیرنے آئے اور پھر ساری زندگی ریڈیو پاکستان کے کمروں سے لیکر پھولوں والی کیاریوں میں پتیاں بکھیرتے گزر گئی۔ آج ریڈیو پاکستان کے 200سالہ درخت بھی باقی صدیقی کی یاد میں باقی ہیں۔ باقی صدیقی کے ڈرامے باقی صدیقی کے پاؤں کی آوازیں اور باقی صدیقی کا باقی رہ جانے والا بقیہ کردار ادب والے درد دل رکھنے والوں کو یہ سبق دے رہا ہے کہ کچھ ایسا لکھو کہ لکھنے کے بعد وہ آپ کے لئے باعث عزت ہو نہ کہ جب آپ یہ فانی دنیا چھوڑ جائیں آپ کے قلم سے لکھے گئے الفاظ کاغذ پر منتقل ہو کر بھی نظر نہ آئیں۔ میری یہ تحریر پڑھنے والے اس لکھائی کو ذرا غور سے دیکھیں اور سوچیں کہ اس پوری تحریر میں 26 حروف تہجی کے بعد 27واں حرف ہر گز نہ ملے گا۔ مگر یہی چھبیس حروف کسی تحریر کو پسندیدہ بنا دیتے ہیں اور کبھی کبھی یہ چھبیس حروف تہجی کسی تحریر کو تاریخ کا سیاہ دھبہ بنا دیا کرتے ہیں۔ باقی صدیقی کی تحریروں نے سیاہ دھبوں والی تحریروں کو بھی ساتھ رنگوں والی قوس قزح بنا ڈالا۔ تو پھر مجھے کہنے دیجئے۔
؎اس شہر میں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں سب بھول گئے
وہ شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد رہا
باقی صدیقی ایک درویش صفت انسان تھا۔ دیکھنے میں بہت کمزور اور دبلا پتلا مگر اقوام عالم کے طاقتور افراد کو اپنے الفاظ اور تحریروں کے ذریعے کمزور کر کے رکھ دیا اور کمزوروں کو اپنے روشن نما قلم اور ننھے منے ہاتھوں سے بالغ اور طاقتور کر کے یہ فانی دنیا چھوڑ گئے۔ مگر ان کا کردار آج بھی ہمارے سامنے سینا تان کر کھڑا ہے اور یہ یقین دلا رہا ہے کہ اگر لوگوں کے دلوں میں مرنے کے بعد بھی زندہ رہنا ہے تو باقی صدیقی کی طرح باقی رہ جائیں اپنے کردار اپنی مثبت سوچ اور وطن کی ناموس پر سب کچھ قربان کر کے۔ باقی صدیقی کے پسندیدہ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
گڈی لنگھ گئی
تے پچھے رہ گیا
بھاں بھاں کرنا ٹیشن
تے شاں شاں کرنے کَن
کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو
ہوش آیا تو تاریکی میں تھے باقی
کتنی دیر چراغ جلا، معلوم نہیں
دل کے ملبے میں دبا جاتا ہوں
زلزلے کیا مرے اندر آئے
تُدھ غلابی چُنی رنگی
میں غلابی پَگ
دو دِلاں نا اتنا ملنا
تَک نہ سکیا جَگ
میں ٹانڈا تُوں ساوی چَھلی
چار دیہاڑے قسمت رَلِی
فیر دنیا نے اس رولے وچ
تُوں وی کہھلا میں وی کہھلی
تم زمانے کی راہ سے آئے
ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا
کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو

اپنا تبصرہ بھیجیں