بارات اور باراتی ماضی اور حال

عبدالجبار چودھری{jcomments on}

پنڈی پوسٹ ڈاٹ پی کےٗ راولپنڈی

بارات کو پوٹھوہاری زبان میں \”جنج\”کہتے ہیں اور باراتی کو جانجی جب کسی کو بات سمجھانا مقصود ہو یا ذمہ داری کا احساس دلانا ضروری ہوتو اسے مثال دی جاتی ہے کہ \”جنج چڑھیاتے نے پر نال تے گیا ایں\” یعنی اگر کام ہاتھ سے انجام نہیں دیا مگر کسی کو کام کرتے دیکھاتو ہوا ہے\”ایک دفعہ

کہیں دوسرے گاؤں بارات لے جانی تھی دلہن والوں نے رخصتی کے لیے ایک شرط رکھ دی کہ بارات کے ساتھ تمام نوجوان ہونے چاہیے کوئی بزرگ ساتھ نہیں ہوگا سب نے سر جوڑ لئے اور ہر ایک اس شرط کے رکھے جانے کی عرض وغایت تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگا اگر کوئی بھی کسی نتیجہ پر پہنچ سکا آخر کار خاندان کے عمر رسیدہ بزرگ نے سب کو مخاطب کیا کہ ٹھیک ہے سب جوان جائیں گے کسی طرح مجھے \” بری\” کے صندوق میں چھپا کر لے جاؤپھر جو ہو گا دیکھا جائے گا بالاآخر بابے کو صندوق میں بند کر کے بارات کے ساتھ لے گئے بارات اگلے گھر پہنچی اب انہوں نے کہا کہ ہر شخص ایک بکرا سالم کھائے گا او ر اس کے بعد رخصتی ہو گی ۔باراتی پریشان ہو گئے اور کھسرپھسر شروع ہو گئی کہ یہ کیسے ممکن ہے ایک آدمی صندوق کے قریب ہوا سارا ماجرا بیان کیا بابے نے کہا انہیں کہیں کہ ایک وقت میں صرف ایک بکرا تیار کر کے لایا جائے اور 100 باراتیوں کیلئے سو بکرے ایک کے ختم ہونے کے بعد پھر ایک سی ترتیب سے لائے جائیں بکرا آتا اور باراتی ایک ایک بوٹی اٹھاتے اور کھا جاتے اس طرح یہ شرط بھی پوری ہوئی میزبان اس بات کی تہہ تک پہنچ گئے ااور کہا کہ تم میں کوئی بزرگ ضرور ہے بس اس کو سامنے لایا جائے کیونکہ اسطرح کی تجویز اور عمل کیسی نوجوان کے بس کی بات نہیں صندوق کھولا گیا اور بابے کو سامنے لایا گیا۔ بابے نے کہا کہ تمہاری شرط نے مجھے ان کے ساتھ آنے پر مجبور کیا کہ ضرور بالضرورایسا کام ہو گا جس سے نپٹناان کے بس کی بات نہیں ہو گی۔
آج سے 30 سال قبل بارات پیدل جاتی تھی اور براداری اورگاؤں کے تمام معزز بزرگ حضرات اعلیٰ لباس زیب تن کر کے ساتھ جاتے تھے پگڑی سجا کر ،جناح کیپ کے کروفر کے ساتھ اور ہاتھ میں عصا اٹھائے بزرگ بارات کے ساتھ ہوتے کیونکہ بارات کے ساتھ جانا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا ۔بارات کے راستے میں \”بٹے\”یعنی وزن رکھ دینے جاتے جب تک کوئی باراتی ان کو کاندھوں پر نہ اٹھاتا بارات آگے نہیں جا سکتی تھی ۔چار پائیوں کو ڈھیلا کر دیا جاتا کہ بیٹھنے والا اس میں اچانک دھنس جائے اور ہنسی کا موقع مل جائے ان تمام کاموں سے کسی کی بے عزتی مقصود نہیں ہوتی بلکہ ان کی ذہانت کا امتحان ہوتا کہ فلاں گاؤں سے آنے والے کتنے ذہین ہیں اور آنے والے خطرات کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں عموماً نکاح بارات والے دن ہی ہوتا تھا اور چھے کلمے بلند آواز میں کھڑے ہو کر سنانے بھی پڑتے تھے بعض اوقات مولوی صاحب جب تک اپنے کان سے چھ کلمے نہ سن لیتے دولہن سے ایجاب و قبول ہی نہ کراتے قیام پاکستان کے بعد 20سال تک صرف گواہان کی موجودگی میں نکاح پڑھا دیا جاتا تھا اور کوئی باقاعدہ دستاویز بھی تیار نہیں کی جاتی تھی دوگواہوں کی موجودگی اور ایجاب وقبول کے بعد رخصتی کر دی جاتی عائلی قوانین کے نفاذ کا عمل 60کی دہائی میں کیا گیا اور باقاعدہ طور پر نکاح نامے جاری کرنے کیلئے نکاح رجسٹرار کا تقرر کیا گیا تب موجودہ فارم بنائے گئے اور ان فارم پر دستخط اور انگوٹھے لگوائے جانے لگے بارات والے دن دولہے اور دلہن گھر پر ہی تیار ہوتے ہیں آج کل کی طرح کئی کئی گھنٹے بیوٹی پارلر پر ضائع نہیں کئے جاتے تھے غرضیکہ بارات اور باراتی کئی روز کے بعد جب اپنے گاؤں واپس آتے تو ایک جشن کا سماں ہوتا ہر کوئی دلہن کو دیکھنے آتا اور بڑی عمر کی عورتیں نصیحتوں کے انبار لگاتی اور ہر ایک ہمیشہ سکھ کے ساتھ رہنے کی دعائیں دیتا آج کل تو جھٹ منگنی جٹ بیاہ جیسی کہاوتیں سچی ہو رہی ہیں ایک ہی دن میں بارات ، ولیمہ ، رخصتی ساری چیزیں ایک چھت تلے کر دی جاتی ہے نہ تو کوئی ساتھ جا سکتا ہے اور نیا علاقہ نئے رسوم ورواج دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی یاد لے کر آسکتا ہے گزشتہ دنوں چیف ایڈیٹر عبدالخطیب چوھدری کے بھیتجے چوھدری عظیم کی بارات کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا اور بارات ان کے آبائی علاقے منگلا میر پور سے ذرا آگے تحصیل سماہنی کے گاؤں پونا گئی ہماری پہلی قیام گاہ منگلا سی ویو جگہ پبی جہاں ہماری تواضح سموسوں ، مٹھائیوں اور جوس سے کی گئی اور کچھ ہی فاصلہ پر پبلی ہوٹل جو ایک اور ویو پر بنایا گیا تھا وہاں چکن تکہ اور کولڈڈرنکسن سے کی گئی ہماری میزبانی چوہدری عبدالخطیب کے بہنوئی نے کی اور پھر پونا ڈگری کالج میں پوری کی پوری بارات کی تواضع کی گئی اس کے بعد بارات مطلوبہ مقام تک پہنچی اور اس تجربہ نے ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے پر مجبور کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں