76

بابو غضنفر علی دبنگ شخصیت

ایک بچہ چھوٹی عمر میں یتیم ہوجاتا ہے ماں اس کو اٹھا کر اپنے والدین کے چلی جاتی ہے وہ بچہ نانا کے گھر پلتا ہے لیکن بڑا ہوکر معاشرے میں گہرے اثرات چھوڑتا ہے

وہ بچہ جو بالکل معصوم تھا اس کا والد اس فانی دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے جس بچے کا ذکر کرنے چلا ہوں وہ بچہ بڑا ہوکر ایک دبنگ شخصیت کے طور پر سامنے آتا ہے

جس شخصیت کا تذکرہ کرنے جارہا ہوں وہ شخصیت بابو غضنفر علی ہیں بابو غضنفر علی 3 اپریل 1946 جبر درویش میں خیر محمد کے گھر پیدا ہوئے،

ان کے والد اور بابو غضنفر علی کے نانا فضل حسین بڑے بااصول، دلیر، مہمان نواز، سوج بوجھ رکھنے اور دبنگ شخصیت کے مالک تھے، بابو غضنفر علی نے اپنے نانا کے زیر سایہ پرورش پائی، والدہ صاحبہ نے اپنے آپ کو اپنے معصوم بچے غضنفر علی کے وقف کر دیا،

جب ایک نوجوان عورت جو بالکل جوانی کی عمر میں بیوہ ہوگی اس نے فیصلہ کرلیا کہ میں نے اپنے بچے کو نازو نعم سے پالنا ہے پھر نانا کا سایہ بھی تھا فضل حسین نے اپنی نوجوان بیٹی اور معصوم نواسے کو سینے سے لگایا

ان کو دھوپ، گرمی اور سردی سے بچایا شاہد ہی کوئی یتیم بچہ اتنے لاڈوں سے پلا جتنا لاڈ بابو غضنفر علی کو ملا، آپ نے پرائمری اور مڈل کے امتحانات جبر درویش کے مڈل سکول سے پاس کئے

پھر میٹرک بسالی ہائی سکول 1963 میں پاس کیا،میٹرک کے بعد وہ پاکستان آرمی میں چلے گئے اور 1971 کی جنگ میں بنگال میں قید ہوئے

اور انڈیا کی جیل میں قید کاٹی، اپ نے چونکہ نانا کی گود میں پرورش پائی اس لئے نوجوان غضنفر علی کے اندر وہ تمام اوصاف موجود تھے جو ان کے نانا فضل حسین کی زندگی میں تھے

، معاملہ فہم، دوراندیش‘ مہمان نواز‘ سوج بوجھ رکھنے والے، اور دبنگ شخصیت کے مالک تھے مجھے ایک دفعہ بتانے لگے میں چترال میں تھا معلوم ہوا میاں طفیل محمد رحمۃ اللہ یہاں آئے ہیں

میں نے اپنے CO کرنل صاحب سے گزارش کی میرے کچھ مہمان ہیں میں ان کو چائے پلانا چاہتا ہوں کرنل صاحب نے پوچھا غضنفر تمہارے کون مہمان ہیں میں نے ان کو بتایا

امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم جناب میاں طفیل محمد ہیں CO صاحب ہنسے اور کہنے لگے کیوں مجھے مروانے لگے ہو پھر ساتھ ہی کہا ٹھیک غضنفر علی ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے

پاکستان کی ایک اہم شخصیت ہماری مہمان بن رہی ہے۔تم ان کو بلا لو کہنے لگے میں نے میس میں امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم جناب طفیل محمد رحمۃ اللہ کو چائے پر بلایا

ایک گھنٹے کی نشست تھی وہ ایک یاد گار لمحہ تھا میرے لئے 1983 وہ پاکستان آرمی سے ریٹائر ہوئے اور 1985 میں باقاعدہ جماعت اسلامی میں شامل ہوگے

ان کا گھر جماعت اسلامی کا مرکز تھا علاقے کے تمام معززین سے ان کے گہرے تعلقات تھے مختلف معاملات میں
علاقے کے تمام معززین ان کی رائے کو اہمیت دیتے تھے

،جماعت اسلامی کے قائدین،راجہ ظہیر خان مرحوم رحمہ اللہ، راجہ بشارت رحمہ اللہ، صاحبزادہ عبدالواحد رحمہ اللہ، ڈاکٹر محمد کمال صاحب، میاں محمد اسلم صاحب، راجہ فضل الحق رحمہ کی کے ساتھ ان کے گہرے دوستانہ تعلقات تھے

، ان کی والدہ محترمہ اپنے بابو غضنفر علی کی تمام خوشیاں دیکھ کر 1984 کو فوت ہوگئیں، بابو غضنفر علی نے آرمی سے ریٹائر ہونے کے بعد فوجی فاؤنڈیشن میں سروس جوائن کرلی فوجی فاؤنڈیشن میں رہ کر انھوں نے اپنے علاقے کے فوجی خاندانوں کی بھرپور ,

مدد کی، ایک سماجی شخصیت ہونے کے حوالے سے ہر وقت دوسروں کے کام کاج کے دوڑدھوپ میں لگے رہتے تھے 2015کے بلدیاتی انتخابات میں

یوسی بسالی سے انھوں نے اور بابو عبدالرزق صاحب نے کونسلرز کا الیکشن لڑا ڈر اور خوف ان کی زندگی میں نہیں تھا بڑے بڑے دھڑوں کے مقابلے میں تنہا سیاسی میدان میں کھڑے ہوجاتے تھے،

2013 اور 2018کے الیکشن میں میرے ساتھ ساتھ بھرپور مہم چلائی وہ اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے مسلسل رابطہ رکھتے تھے ان سے فون پر رابطہ رکھنا، ان سے ملاقات کرنا ان کا حال احوال پوچھنا ان کے بچوں کا خیال رکھنا

ان کے قریبی دوست کلاس فیلو، شادی کے دوست میرے بھائی عبدالمجید ایڈشنل ڈائریکٹر ریٹائرڈ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کہنے لگے

کہ بابو غضنفر علی بہت ہی مخلص دوست، محبت کرنے والے اور مہربان بھائی تھے، اس کے علاؤہ ان کے قریبی دوست نجیب الحق ڈھوک حسو، راجہ ظفر، رب نواز میرا موڑہ، بابو عبدالرزق بسالی، عبدالقدیر اعوان سملال، ملک عباس سملال سابق ممبر ضلع کونسل، خالد محمود مرزا، ظہور بھٹی جبر درویش

، رحیم سلطان ماڑی دانشمندان، حاجی محمد اشرف ماڑی دانشمندان تھے، منظور صاحب مرحوم سملال، قاضی سلیم اصغر پیال، محبوب عالم بھال، ملک سپارس کالی پڑی،اختر محمود ملک بسالی، وہ جماعت اسلامی کے

سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے دبنگ لیڈر تھے وہ شکار کے بھی بہت شوقین تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں عطا کئیں، ان کے بچے چھوٹے تھے تو ان کی بیوی فوت ہوگی

پھر انھوں نے سات بچوں کو ماں اور باپ کا پیار دیا ان کے دونوں بیٹے محمد عثمان فاروق اور محمد نعمان فاروق والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے

اپنے رشتوں کو اچھی طرح نباہ رہیں ہیں میرا ان کے بچوں سے بہت کلوز تعلق ہے الحمداللہ، اور دونوں بیٹے بھی بہت جذباتی محبت کرتے ہیں، ان کے بچے شادی شدہ ہیں

وہ اپنے اپنے گھروں میں خوشحالی کی زندگی گزار رہیں لیکن بابو غضنفر علی ہمیں چھوڑ کر 3 اکتوبر 2020 اپنے رب کے پاس پہنچ گئے عثمان نے روتے ہوئے فون کیا

کہ مرزا صاحب ابو جی اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں آپ پہنچ جائیں جنازہ آپ نے پڑھانا ہے جب جنازہ کے لئے آگے کھڑا ہوا تو بڑے مجمعے کو گواہ بنا کر اعلان کیا

کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بابو غضنفر علی نے ایک سچی، کھری، خیرخواہی والی زندگی گزاری ہے انھوں نے ساری زندگی اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لئے بھرپور کوشش کی ہے،

ان کے تعزیتی ریفرنس پر میرا خطاب تھا لیکن علاقے کے علماء اکرام، ظہور بھٹی،عبدالقدیر اعوان نے بھی ان کی زندگی کے گوشے کھول کھول کر لوگوں کے سامنے رکھے

اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ان کے بچوں اور بچیوں کی حفاظت فرمائے ان کے گھروں پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے اوران کے والدین،نانا اور نانی قبروں پر بھی اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے آمین

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں