بابو رشید دوستی نبھانے والی شخصیت

عبدالجبار چوہدری/بابو رشید ولد فیض عالم مرحوم تحصیل کلرسیداں کے گاوں ٹیالہ کے ایک آسودہ گھرانے میں 18 اپریل 1948کو پیدا ہوئے گورنمنٹ ہائی سکول کلر سیداں سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ1965میں پاس کیا مڈل تک سکول کے بہترین مباحثہ کرنے والے رہے پی ٹی سی گورنمنٹ نارمل ایجوکیشن اکیڈمی لالہ موسیٰ سے کی، یہ اکیڈمی ڈویژن راولپنڈی جس میں جہلم اور چکوال کی تحصیلیں بھی اس وقت شامل تھی واحد اساتذہ کی تربیت کا ادارہ تھا گورنمنٹ پرائمری سکول نڑ میں پہلی تعیناتی ہوئی گھر سے کئی میل دور پہاڑ کے علاقہ میں خدمات انجام دینا بہت کھٹن کا م تھا آپ کے والد گرامی کو بہت سے دوستوں نے یہ کہہ کر بابو رشید کو استعفیٰ پر راضی کیا کہ اکلوتی اولاد کو اتنے دور چھوڑنا نہیں چاہیے،محکمہ تعلیم سے استعفیٰ کے بعد محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میں بطور جونیئر کلرک بھرتی ہو گئے اور اعلیٰ صلاحیتوں کے بل بوتے پر انسپکٹر کے عہدے پر ریٹائر ہوئے،40سال ملازمت کی راولپنڈی سے باہر تبادلہ نہیں ہوا ایک ہی جگہ پر اتنے سال گزارنا بلاشبہ مرحوم بابو رشیدکی اپنے ادارے کے ساتھ کمٹمنٹ کا پتہ دیتی ہے۔بابو رشید کی روحانی وابستگی آستانہ عالیہ گولڑہ شریف سے تھی پیر شاہ عبدالحق المعروف چھوٹے لالہ جی کے دست حق پرست پر بیعت تھے جبکہ مرحوم فیض عالم قبلہ عالم حضور پیر سید مہر علی شاہ ؒ کے مرید تھے اس طرح پوری تین پشتیں آستانہ عالیہ گولڑ ہ شریف کی مرید ہوئیں سادات سے احترام اور مودت کا رشتہ ان کی خاندانی گھٹی میں شامل ہے 1973میں پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستگی کی وجہ سابق ممبر ضلع کونسل چوہدری سلطان محمود آف کاہلیاں سہالیاں بنے ان سے دوستی اس قدر بڑھی کہ 1987میں ان کی وفات کے بعد ان کے حقیقی چھوٹے بھائی چوہدری محمد خالد مرحوم ایم پی اے پی پی سات کا ساتھ دل و جان سے دیا پاکستان پیپلزپارٹی کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کیے رکھا 1985ء میں راجہ شاہد ظفرسابق وفاقی وزیر کا جلسہ اپنے گھرکرایا اور چوک پنڈوڑی بازار میں اپنی بلڈنگ میں پیپلزپارٹی کا دفتر قائم کیا۔مقامی سیاست میں ہمیشہ سرگرم کردار ادا کیا گورنمنٹ ہائی سکول کلریاں کو ہائی کا درجہ دلوایا،1981ء میں اپنے گاوں میں سب سے پہلے بجلی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا،2000ء میں چوہدری خالد مرحوم ایم پی اے کے انتقال کے بعد عملی سیاست سے آہستہ آہستہ علیحدگی اختیار کر لی مگر جب 2005میں دیرینہ دوست ملک اشرف مرحوم کے بیٹے ملک سہیل اشرف نے تحصیل ناظم کا الیکشن لڑا تو بابو رشید نے سرگرم کردار ادا کیا اور ملک سہیل اشرف تحصیل ناظم منتخب ہو گئے بابو رشید نے والد گرامی کے تعلق داروں اور دوستوں کے ساتھ دم آخر تعلق کو نبھایا اور ثابت کیا کہ راستے کچے ہوں سواریاں نہ بھی ہوں مگر دُھن کے پکے لوگ تعلق نسلوں تک نبھاتے ہیں ایسے لوگوں میں بابو رشید کا شمار ہوتا تھا اور اسی عزم کا اظہار ان کے بیٹوں عامر رشید ایڈووکیٹ اور ماسٹر عمیر رشید نے بھی کیا۔بابو رشید کی ایک خصوصیت کہ غم کے مواقع پر سب سے پہلے پہنچنے والوں میں ہوتے تھے تمام عمر گاوں میں رہائش رکھی،ہر دور کی چھوٹی سواری ان کے پاس رہی عزیز رشتہ داروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ا صولوں پر ڈٹے رہے،بہت مشکلیں پیش آئیں زندگی بھر مختلف چیلنجز سے نبرد آزما رہے۔ خلاف طبع کام اور کلام سے ہمیشہ دور رہے بھاری بھر کم آواز،وجیہہ صورت کی وجہ سے جلد لوگ ان کی طرف متوجہ ہو جاتے متوازن گفتگو میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا 5جنوری 2009کو سب سے پہلے چھوٹے بیٹے اویس رشید ایک ٹریفک حادثہ میں جان بحق ہو گئے جن کی عمر صرف 21سال تھی ا س درد لادوا نے صحت پر گہرا اثر ڈالا،2014ء میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اس کے بعد صحت کے مسائل نے آن گھیرا دن بدن جسمانی کمزوری بڑھتی گئی بالآخر فالج کے شدید حملے سے جانبر نہ ہو سکے چند دن ہسپتال میں داخل رہنے کے بعد 9جولائی 2020ء کو خالق حقیقی سے جا ملے اگلے دن 10جولائی 2020ء کو آبائی گاؤں ٹیالہ چوکپنڈوڑی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔رب کائنات سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں