بابائے ثقافت راجہ محمد ابراہیم اسیر

دریائے جہلم اور کاہرو کی دھرتی کے درمیان نسبتاً نشیب میں رنوال راجپوتوں کی ایک بستی ہے جسے موضع نمبل کے نام سے دنیا جانتی ہے لیکن اس گاؤں کو پہچان اس شخصیت نے دی جسے اہلیانِ پوٹھوہار ”بابائے ثقافت و فخر پوٹھوہار راجہ محمد ابراہیم اسیر” کے نام سے جانتے ہیں۔ آج اپنے قارئین کے لیے ان کا انٹرویو پیش کررہا ہوں۔ راجہ محمد اکبر کے گھر یکم جنوری 1933ء کو راجہ محمد ابراہیم گاؤں نمبل تحصیل کہوٹہ موجودہ تحصیل کلرسیداں پیدا ہوئے آپ تین بھائی اور چار بہنوں میں چوتھے نمبر پر تھے

۔ آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اور دوران تعلیم ہی بیت بازی کا شوق پیدا ہوا کیونکہ سائیں افسر ؒ اور سائیں اسلم ؒ پیران ڈھیری تھوہا خالصہ شعرخوان راجہ فضل داد سکنہ سلطان خیل (راجہ سلطان احمد ثانی ؒ المعروف دادا پیر کالا) مریدین کے ہاں نیاز کیلئے تشریف لاتے تھے اس دوران بیت بازی کی محافل کا انعقاد بھی ہوتا تھا جہاں پہلی بار باقاعدہ طور پر 1953ء میں اپنے گاؤں نمبل میں راجہ فضل داد کے ساتھ بیت بازی کی جسکے بعد متواتر محافل میں شریک ہوتے رہے، 31 جنوری 1955ء میں فوج(اے۔ایس۔سی) میں بطورِ ڈرائیور (ایم ٹی) بھرتی ہوئے چونکہ نوکری راولپنڈی کینٹ میں تھی اور راولپنڈی اس وقت پوٹھوہار اور بیت بازی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔

وہاں سٹی صدر روڈ پر واقع پڑاؤ پر راجہ خوشحال خان سکنہ چراہ اور راجہ محمد یعقوب سکنہ جنجور تحصیل کہوٹہ کی جوڑی کے چرچے تھے،جس پر راولپنڈی کی مشہور و معروف شاعرہ ممتاز بیگم نے اپنے ایک چوبرگہ میں یوں بیان کیا (اٹھنا بیٹھنا کم خوشحال راجہ، مٹھی واز رسیلی یعقوب دی اے) راجہ محمد یعقوب سے متاثر ہو کر 1956ء میں شاگرد ہوئے‘اسی سال اپنے خاندان میں شادی ہوئی جس سے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں تولد ہوئیں۔ شاعری کب شروع کی اس سوال کے جواب پر مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ 1957ء میں بائیں میلے پر پہلا چومصرعہ کہا چونکہ بچپن سے اپنے دوست صوبیدار بشیر راہی سکنہ موہڑہ لنگڑیال سے متاثر تھا شاعری میں شاگردی کے سوال پر جواب دیا کہ اپنے دوست‘ہم جماعت عبدالخالق قلی ؒ کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا

جبکہ اشعار میں تخلص اسیر مستعمل کیا۔ شعراء دوستوں میں سائیں گل فیاض کیانی ؒ، صوبیدار بشیر راہی اور قلی ؒ شامل تھے جبکہ شعراء میں پسندیدہ سائیں احمد علی ایرانی پشوری ؒ عبدالکریم ہمسر، اللہ داد چنگی، پیر فضل گجراتی ؒ، اللہ دتہ جوگی جہلمی ؒ، سید نذر حسین مضطر رح، تارا چند،ملکھی رام، انور فراق قریشی ؒ، مرزا شیر زمان ؒ، خداداد دکھیا مرحوم مولوی عبدل ؒ، سائیں رمضان قمرؒ، زرداد بسمل مرحوم،راجہ ولائیت حسین ازہر رح، ماسٹر شریف نثار ؒسائیں گل فیاض کیانی ؒ عبدالخالق قلی ؒ اور بشیر راہی مرحوم جن کے اشعار محافل میں عموماً پیش کرتے رہے ہیں۔1962ء میں چوہدری محمد اکرم گجر مرحوم کے ساتھ نمبل پروگرام اور 1963ء میں سکرانہ پروگرام بہت مشہور ہوئے جس کے بعد راجہ محمد ابراہیم اور چوہدری اکرم گجر کو پہچان ملی اور ان کی جوڑی مشہور ہوئی یہاں تک کہ ایک وقت تھا جب لوگ ان کی بیت بازی کے بغیر شادیاں اور میلے ادھورے سمجھتے تھے انکی باہمی گپ شپ اور چوٹ کو آج بھی منفرد مقام حاصل ہے۔راجہ ابراہیم محمد یسین کے ساتھ 1963 ء کو جبر اسلام پورہ پروگرام کو بھی تاریخی محفل گردانتے ہیں، جبکہ ان کی مشہور محافل فضل داد، راجہ یعقوب، رضا شاہ، سائیں برکت، فتح محمد، قاضی واحد مرحوم کے ساتھ ہوئی ہیں

جو پوٹھوہار میں بہت پسند کی گئی ہیں۔پیشہ کے لحاظ سے آپ ایک زمیندار اور چوبیس سال ڈرائیور رہے ہیں چونکہ آپ نے دس سال نوکری کرنے کے بعد چھوڑ دی پھر پہلے چوآ خالصہ سے راولپنڈی بس چلاتے رہے کچھ عرصہ بعد اپنی گاڑی ویگن لی جسے دوبیرن کلاں سے راولپنڈی چلاتے رہے ہیں۔نرینہ اولاد میں ایک بیٹا بمعہ خاندان برطانیہ میں مقیم ہے جبکہ دوسرا بیٹا آپکی دیکھ بھال کے لئے آپکے ساتھ رہتا ہے۔ نواسہ راجہ کاشف المعروف کاشی شاعر ہے اور سائیں گل فیاض کیانی ؒکا آخری شاگرد بھی، شعرخوانی میں شاگردان راجہ یاسر عرفات مرحوم، وادی حسین موہڑہ ہیراں، ملک غلام مصطفیٰ چونترہ، چوہدری مبارک حسین سموٹ، شاہ جہان سورکھی، ماسٹر محمد عاصم کوٹلی کشمیر اور عبدالقادر نلہ مسلماناں شامل ہیں جبکہ شاعری میں شاگردان چوہدری مبارک راز، محمد شہزاد چشم اور راجہ محمد ارشاد شامل ہیں۔دوستوں میں راجہ مختار شاد نمب، قاضی محبوب موہڑہ ہیراں،محمد بشارت بھٹی پیل نلہ، چوہدری محمد عرفان عرف خان نلہ، عبادت ستی پنڈ بینسو، صفدر حسین پنڈ بینسو، ماسٹر سفیر سنمبل،محمد اصغر و تصور حسین موہڑہ ہیراں شامل ہیں۔راجہ ابراہیم نے مختلف ممالک کے ثقافتی دورے بھی کیے جن میں نومبر 1993ء سے جنوری 1994ء تک سعودی عرب اور مارچ 1994ء سے اگست 1994 ء برطانیہ میں اپنے فن کا لوہا منوایا، مشہور پروگراموں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ چوہدری محمد اکرم گجر کے ساتھ موہڑہ ہیراں، محبوب ہوٹل سہنسہ، موہریاں اسلام آباد اور کاہلیاں پروگرام یادگار تھے

۔یوں تو اہلیانِ پوٹھوہار و کوہسار اور کشمیر نے آپ کو بیشمار القابات اور اعزازات سے نوازا ہے لیکن 2015ء سدا کمال محفل مشاعرہ (جس کی نظامت بندہ حقیر نے کی) میں راجہ یاسر عرفات فخر پوٹھوہار کا لقب دیا جبکہ 2017ء میں انجمن ارباب سخن کہوٹہ (جس کی نظامت بندہ حقیر نے کی) نے ادبی خدمات پر ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا جبکہ 28 مئی 2022ء برسی بلبل پوٹھوہار سائیں گل فیاض کیانی ؒ پر بزمِ سخن پوٹھوہار کی طرف سے بابائے ثقافت کا خطاب اور ادبی خدمات پر ایوارڈ دیا گیا۔ راجہ محمد ابراہیم اسیر نے سنہ 2000 ء عرس مبارک حضرت پیرا شاہ غازی رح کھڑی شریف شعرخوانی سے مکمل ریٹائرمنٹ لے لی جس کے بعد آج تک بطورِ سخنور اپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔شعرخوانوں اور شعراء کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ با ادب اور مثبت انداز میں محنت سے کام لیتے ہوئے پوٹھوہار کی روایات و اقدار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنا نام بنائیں۔ہم اہلیانِ پوٹھوہار بالخصوص اور پوٹھوہاری ادب و ثقافت سے تعلق رکھنے والے بالعموم راجہ محمد ابراہیم اسیر کو انکی ادبی و ثقافتی خدمات پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
ان کا ایک سخن پیش خدمت ہے
ادھر اکھیاں سہکدیاں دید باہجوں
ادھر ہور گل کاریاں ہو رہیاں
ساہ رکدے تڑفدا روح میرا
ادھر سیجاں سنواریاں ہو رہیاں
ادھروں زاریاں ترلے سوال بھیجاں
ادھر گلے گزاریاں ہو رہیاں
ادھر خوشیاں نیں جشن اسیر ادھر
ملک عدم تیاریاں ہو رہیاں

اپنا تبصرہ بھیجیں