بائیکاٹ مہم‘ایک سنجیدہ اور پیچیدہ طرزِ عمل

گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں مختلف اشیائے صرف کے بائیکاٹ کی ایک جذباتی مہم زور پکڑ گئی ہے۔ یہ مہم سوشل میڈیا سے نکل کر ہمارے روزمرہ معمولات‘ تقریبات اور بازاروں تک پہنچ چکی ہے۔ جس کسی پراڈکٹ پر بیرونی سرمایہ داری، خاص طور پر یہودی یا مغربی ملکیت کا گمان ہوتا ہے، وہ فوراً ”قابلِ بائیکاٹ“ قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس رجحان کے پیچھے فلسطینی عوام سے ہمدردی کا نیک جذبہ ضرور موجود ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس جذبے کو حکمت، توازن اور حقیقت پسندی کے ساتھ نبھا رہے ہیں؟

معاملہ صرف جذبات یا نظریات کا نہیں رہا، اب یہ ہماری صحت اور معیارِ زندگی سے بھی جُڑ چکا ہے۔ معروف مشروبات، معیاری پانی اور کئی عالمی معیار کی اشیائے خور و نوش کے بائیکاٹ کے بعد جو مقامی متبادل مارکیٹ میں جگہ پا رہے ہیں،

جن کی اکثریت نہ صرف غیر معیاری بلکہ بعض اوقات صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتے ہیں۔ شادی ہالوں، دفاتر اور تقریبات میں عالمی معیار کی اشیاء کی جگہ ایسے مشروبات اور خوراک دی جا رہی ہیں جو نہ ذائقے میں معیاری ہیں، نہ حفظانِ صحت کے اصولوں پر پورا اُترتے ہیں۔

یہ سوال میرے لیے محض نظری یا سماجی نہیں‘بلکہ ذاتی تجربے سے بھی جڑا ہوا ہے۔ میں خون کے ایک کینسر کے اسٹیج فور کا مریض ہوں۔ جب بیماری نے تمام تر جسمانی قوت سلب کر لی تب رسٹوا (Rystiggo)، جس کا کیمیائی نام رمپ امب (Ravulizumab) ہے نے مجھے زندگی کی طرف لوٹنے کا ایک موقع دیا۔ یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ میں مکمل شفایاب ہو چکا ہوں، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اس دوا نے میرے لیے اس مہلک بیماری سے نمٹنے اور روزمرہ زندگی کے معمولات سے جڑے رہنے کی صلاحیت پیدا کی۔ آج میں زندہ ہوں، لکھ رہا ہوں،

سوچ رہا ہوں تو یہ کسی سائنسی معجزے سے کم نہیں، اور یہ معجزہ مغرب کی انہی تحقیقی و طبی کوششوں کا نتیجہ ہے جہاں میعار پر کوئی سمجھوتا نہیں۔اس پس منظر میں میرا سوال اُن مہم چلانے والوں سے ہے: کیا آپ دواؤ ں کے معاملے میں بھی یہی اصول اپنائیں گے؟ کیا ہم ان لاکھوں مریضوں سے یہ توقع رکھیں کہ وہ نظریاتی بائیکاٹ کے نام پر اپنی زندگی کے امکانات ترک کر دیں؟ کیا دل، شوگر، فالج اور کینسر جیسے موذی امراض کے جدید علاج اور تشخیص کو بھی ہم رد کر دیں گے، محض اس لیے کہ وہ مغربی اداروں کی تحقیق کا ثمر ہیں؟

بائیکاٹ ایک سنجیدہ اور پیچیدہ طرزِ عمل ہے۔ اس کا اطلاق اگر شعور اور حکمت کے ساتھ نہ کیا جائے تو نقصان صرف دوسروں کو نہیں، بلکہ خود ہمیں ہو گا۔

جسمانی، ذہنی، اور اجتماعی سطح پر بائیکاٹ کا نعرہ تبھی موثر ہوتا ہے جب اس کے ساتھ معیاری‘ سائنسی اور مکمل متبادل موجود ہوں۔ بصورتِ دیگر یہ محض ایک جذباتی شور رہ جاتا ہے جو وقتی تسکین تو دے سکتا ہے مگر مسائل کا حل نہیں بن سکتا۔یہ وقت ہے کہ ہم بائیکاٹ کے جذبات کو سائنسی عمل اور قومی خود کفالت میں ڈھالیں۔ ہمیں اپنے تحقیقی اداروں، میڈیکل انڈسٹری اور تعلیمی نظام کو مضبوط کرنا ہو گا تاکہ ہم صرف ردِعمل پر نہیں، بامعنی عمل پر یقین رکھنے والی قوم بن سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں