149

اے مہاراج دے ناں دی ویل

{jcomments on}آپ نے دیکھاہو گا کہ گاؤں محلے میں بھا نڈ ‘ کنجر ‘ گو یے ،میراثی گلی گلی بستی ہر شا دی بیا ہ اور خو شی کی تقر یب میں کچھ بلا نے پر اور کچھ بن بلا ئے گھر و ں میں پہنچ جا تے ہیں ۔ آ پ لو گو ں نے اس با ت پر بھی غو ر کیا ہو گا کہ جب آ پ اپنی

جیب سے پانچ، دس، پچاس یا سو رو پے دیتے ہیں تو کھسرا یا میر اثی نو ٹ لہر اتا اچھلتا کو دتا ہوا میدا ن میں آ کر نو ٹ دکھا کر یہ کہتا ہے کہ ! اے ویل ویل ، اے مہاراج دے ناں دی ویل ، اے سوہنڑے دی ویل ، اے پائی چارے نی ویل ، کچھ سمجھے ؟ کیا سمجھے ؟ غا لبََا خا ک !مطلب یہ کہ اے سو رو پے کا نو ٹ دینے وا لے ۔ تجھ پر ویل پھٹکا ر ‘ لعنت ‘ تیرا منہ خاک آ لو د ‘ ستیا نا س جا ئے تیرا ‘میر ی طرف سے بھی ویل۔ویل کے معنی پھٹکا ر و لعنت کے ہیں ۔فو یل للذ ین یکتبو ن الکتب . البقر ہ ۔ ویل یو مئذٍ للمکذ بین . المر سلت۔ ویل جہنم کی ایک وادی کو بھی کہتے ہیں ‘ ویل کے معنی تیرا چہر ہ خا ک آ لو د ہو وغیرہ۔ ان حضرات کے ذمہ ایک مشن ہے ۔ وہ ایک خا ص مقصد لے کر آ ئے ہیں ۔ہما رے گھرو ں میں پہنچ کر فحش گا نے ‘ محز ب الا خلا ق حرکات ‘ ایما ن بگا ڑ ٹو ٹکے ‘ شر ک و بد عت سے بھر پو ر قو الیا ں ‘ دوحے ‘ ما ہیے ‘ قصیدے اور مر ثیے گاتے چلے جا تے ہیں ۔ یہ لوگ اپنی طر ف سے بھی ویل ‘ پھٹکا ر اور لعنت اسلیے ہم پہ بھیجتے ہیں کہ تو نے سو رو پیہ وہا ں بر با د کیا جس پر پہلے سے اﷲ کی پھٹکا ر پڑ چکی تھی ۔اس محنثّ ‘ ہیجڑے اور بھڑکیلے لبا س والے پر تو نے سینکڑو ں رو پے ا ڑا دیے ‘ میں کہتا ہو ں کہ وا قعی یہ شخص پھٹکا ر کا مستحق تھا ور نہ اس کی دو لت فحش کامو ں پر خر چ نہ ہو تی بلکہ کسی دینی خد مت میں خرچ ہو تی۔ افسو س تو اس با ت کا ہے کہ اے ویل ویل‘اے مہاراج دے ناں دی ویل کی آواز کسی غیر مسلم کے آ نگن سے نہیں آرہی بلکہ ایک مسلمان کے گھر سے یہ بیہودہ آواز بلند ہو رہی ہے ۔ایسا گھر جہاں سے قرآن کی تلاوت اور نبی پاک ﷺ کی نعت شریف کی آواز آنی چاہیے لیکن ایمانی ، معاشرتی اور دینی طور پہ ہم بے حس ہو چکے ہیں ۔ہم اپنی ہی دو لت سے اپنی ذ ات اور مذہب دو نو ں پر لعنت بھجو ا رہے ہیں ۔ نا چنے کو دنے وا لا دو لت بھی اکٹھی کر رہا ہے اور سا تھ سا تھ دولت دینے وا لے پر لعنت بھی بھیج رہا ہے ۔اگر دیکھا جائے تو انسان کی سرشت میں ہے کہ پیسہ اس کو بہت عزیز ہوتا ہے۔آپ سائیکل پہ جارہے ہیں، گاڑی پہ ہیں یا پیدل ،جیسے ہی آپ کو سڑک کے کنارے دس ، پچاس یا سو کا نوٹ نظر آئے تو آپ کے قدم ایکدم رک جائیں گے ۔ہم اٹھا لیں گے یا اس نوٹ پہ پاؤں رکھ کے کھڑے ہوجائیں گے جیسے ہی مناسب ہو گا اٹھا کے پاکٹ میں ڈال لیں گے ۔لیکن یہ جذبہ اور پیسے کا لالچ کھسرے یا کنجری پہ اڑاتے ہوئے کدھر چلا جاتا ہے ؟ کیوں ہم طوائفوں کو گھر لاتے ہیں اور ان کے قدموں میں نوٹوں کا قالین بچھا دیتے ہیں ؟یاد رکھیے خوشی کا دورانیہ مختصر اور غم کا طویل ہوتا ہے ۔ہم نہیں جان سکتے کہ اللہ کے فضل میں سے ایک دولت بھی ہے ، اللہ جب کسی سے راضی ہوتا ہے تو اس کو اچھی صحت ، نیک اولاد، اچھے دوست ، اور دولت کی فراوانی عطا کرتا ہے ۔ایمان کے بعد دولت اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہوتی ہے ، لیکن اللہ کے اس فضل پر جب طوائف ناچتی ہے اور اس کے ناپاک پاؤں پڑتے ہیں تو اللہ ناراض ہو جا تا ہے ۔اور پھر اللہ دولت کی ناقدری کرنے والے سے دولت ، صحت ، دوست اور عقل چھین لیتا ہے ۔کیونکہ اللہ اپنی نعمت کی ناقدری برداشت نہیں کرسکتے ۔کیا یہ اللہ کا فضل اور کرم نہیں کہ ہمارے پاس وہ کچھ ہے جس کی دعا کرتے کرتے ہمارے اباؤ اجداد قبر تک چلے گئے ۔ آج ہم لوگوں پہ اللہ کا فضل اور کرم ہے تو ہم اپنی اوقات تک بھول گئے ہیں ۔ہمارے گاؤں میں پکی سڑک تک نہیں تھی ، زمین کی کٹائی ، بوائی گہائی بیلوں سے کی جاتی تھی ، بجلی نہیں تھی رات کے وقت پورا گاؤں اندھیرے میں ڈوب جاتا تھا تو گھر کی عورتیں لالٹین جلاتی تھی جس کی مدہم روشنی کے عوض گھر کی دیواریں اور بستر بھی کالے ہوجاتے تھے ۔ہم لوگوں کے پاس کپڑے بھی دو جوڑے ہوا کرتے تھے جو استری کرنے کے لیے سرھانے کی نیچے رکھتے تھے ۔لسی سے ناشتہ اور کچی سے لنچ ہوا کرتا تھا۔ڈاکٹر کا تصور ہی نہیں تھا اگر طبیعت زیادہ خراب ہو تو مولوی صاحب سے پھونک مروا لی جاتی تھی ۔ہماری عورتیں پورے ہفتے کے کپڑے کسی پہ لے کے جاتی تھی اور زمین کا کلر ہی صابن اور سرف ہوتا تھا۔ گاؤں کی مسجد کا باتھ روم مردوں کے لیے کامن ہوتا تھا۔شیمپو اور لکس صابن ہر کسی کی اپروچ میں نہیں تھا۔پیپسی اور سیون اپ دوا کے طور پہ استعمال کی جاتی تھی ۔پیکٹ والا دودھ اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔دو کتابیں ، ایک سلیٹ اور تختی ہماری تعلیمی قابلیت تھی ۔گرمیوں میں آس پاس گاؤں سے برف اکٹھی کی جاتی تھی ۔روح افزا شربت سے افطاری عیاشی تصور کی جاتی تھی ۔اوپن حمام کی بروقت دستیابی کے لیے لوگ صبح صادق سے پہلے اٹھ جاتے تھے ۔کوئی گلی ،چھت اور نالی پکی نہیں تھی۔لیکن کیا آج ہمارے پاس پکی سڑک ، گیس ، بجلی ، استری شدہ کپڑوں کے دس دس جوڑے ، واشنگ مشین ، فریج ، ہسپتال ، گاڑی ، پرآسائش گھر ، اے سی ، اچھی تعلیم ، فلش سسٹم ، ٹریکٹر نہیں ہیں کیا ؟ یہ سب اللہ کا فضل ہے لیکن ہم یہ سب کچھ بھول کر اللہ کو کھلے عام چیلنج کر رہے ہیں ۔ہم نے اللہ اور حضورﷺ کے احسانات فراموش کر دئیے ہیں ، قرآن ہم نے طاق میں رکھ دئیے ، چھ چھ مہینے ہم مسجد کا رخ نہیں کرتے ، نبی ﷺ کی کتنی سنتیں ہم نے زندہ رکھی ہوئی ہیں ؟یاد رکھیے جس نے بھی نوٹ کو طوائف کے پاؤں تلے روندا وہ تباہ ہو کر رہ جاتا ہے اور وہ شخص کبھی بھی امیر نہیں رہ سکتا جو اللہ کے فضل کو گندی عورتوں پہ نچھاور کر تا ہے اورویل ویل سے لعنت اور پھٹکار بھی اپنے سر لیتا ہے ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں