آزادی کے سڑسٹھ برس گزرنے کے بعد امسال بھی ہم قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم ولادت منارہے ہیں ۔ وہ قائداعظم جس نے اس دنیا کو پہلی ایسی مملکت عطا کی کہ جو کسی علاقائی یا قومی (رنگ و نسل) کی بنیاد پر معرضِ وجود میں نہیں آئی بلکہ ایک نظریہ سے وابسطہ مختلف علاقائی اکا ئیوں اور رنگ و نسل کیلئے ایک نظریاتی بنیاد پر قائم ہوئی۔
اس مملکت کو حاصل کرنے کی نہضت مختلف مراحل سے گزری ۔ شروع میں قدر معمولی مسائل اور بتدریج ایک ملک کے حصول تک جا پہنچی اور نتیجتہ یہ ارضِ پاک یعنی ’’پاکستان‘‘ معرضِ وجود میں آ یا ۔
اس ارضِ پاک کے حصول میں مختلف شخصیات نے اپنے اپنے انداز اور اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی خدمات سرانجام دیں۔ جیسے سر سید احمد خان نے حالات کا جائزہ لے کر عصری تعلیم پر اپنی توجہات مر کوز کیں۔ اس وقت کے تکفیریوں سے لقب ’’کافر‘‘ حاصل کیا ۔ کفر کے فتوٰی کے باجود سرسید احمد خان نے علی گڑ ھ مسلم یونیورسٹی کی آبیاری کی جس کے فارغ التحصیل طلبہ نے قیامِ پاکستان کی تحریک میں ہر اول دستہ کا کردار ادا کیا ۔ یوں عصری تعلیم کو فروغ دینے والے ’’ کافر‘‘ کے شاگرد وں نے ’’ مسلمانوں ‘‘ کو آزادی دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اسی طرح علامہ اقبا ل نے اپنی فہم و فراست کو شعرکی صورت میں ڈھالا اور سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا اور شاعر مشرق کہلائے، برِصغیر کے اندر مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کا تصور دیا اور مصورِ پاکستان کہلائے ۔ اسلام کے آفاقی پیغام کو زبانِ زدِ عام کیا۔ علامہ اقبال نے تعلیماتِ اسلام کسی تنگ نظراور لکیر کے فقیرسے حاصل نہ کیں تھیں جس کی وجہ سے مکتب خاص کی تنگ نظری اور علامہ کے درمیان ٹھن گئی اور تنگ نظری نے کفر و الحاد کے فتاویٰ سے تصورِ اقبال کو مسخ کرنے کی کوشش کی کیونکہ جہالت جب دلیل سے بات نہیں کر سکتی تو وہ گھٹیہ ترین طریقوں سے وار کرتی ہے۔
سرسید احمد خان نے کے ’’عصر ی تعلیم‘‘ کے فیصلے کو جیسے یہ تنگ نظر و جاہل اکابرین نہ روک سکے اسی طرح مصور پاکستان کے خواب کو حقیقت میں بھی تبدیل ہونے سے نہ روک سکے ۔معاشرے کی اجتماعی تبدیلی اور نظم و نسق میں کلیدی کردار ایک مدبر سیاستدان کا ہوتا ہے اس لیے جب وقت کی نابغۂ ترین شخصیت محمد علی جناح کے ہاتھ میں برِ صغیر کے مسلمانوں کی قیادت کا عَلم آتا ہے تو وہ ان تمام علمی و فکری اور سیاسی اثاثوں کو منتظم و مجتمع کر کے اس کا روان آزادی کو آگے بڑھاتے ہیں تو مکتب تنگ نظری و جہالت پہ در پہ ناکامیوں کے باوجود اس بسطل حریت کے خلاف صف آراء ہو جاتا ہے ۔ پہلے پہل تو مسلک کی بنیاد پر ناکام کرنے کی کوشش کی جب یہ طریقہ کار گر ثابت نہ ہو سکا تو کلی طور پر ’’ قائداعظم‘‘ کو’’کافر اعظم ‘‘اور ’’پاکستان ‘‘ کو ’’کافرستان‘‘ کے مترادف بنایا اور یہ سمجھ لیا کہ اب یہ ’’ شمع حق ‘‘ بجھ جائے گا ۔ لیکن ’’ اللہ کی تدبیر ‘‘کامیاب ہوئی اور’’ شیطان کا مکر‘‘ ناکام ہوا۔ آزادی کے بعد ’’کافرستان‘‘ کے گناہ میں شریک نہ ہونے پر ’’شکرِ خدا ‘‘ ادا کرنے والے بھی اسی میں آبسے اور ’’ کافر اعظم‘‘ کو نہ ماننے والے بھی اس کے جھنڈے کے سامنے سر نگوں ہو گئے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس بتاریخ 21اکتوبر 1939 کے موقع پر فرمایا تھا ،، میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد وسر بلند دیکھو۔ میں چاہتا ہوں کہ جب میں مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہین کی اور مسلمانوں کی آزادی ، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کر دیا۔
یہ خطاب قائدا عظم محمد علی جناح نے اپنی وفات سے تقریبا 9سال قبل کیا اور وقتِ وفات پر یقیناً اس زاویہ سے وہ ضرور مطمئن ہوں گے کہ انہوں نے مسلمانانِ برِ صغیر کو ایک علیحدہ ملک حاصل کر کے دے دیا کہ جو ان کی آزادی کا محافظ اور عظمت و سربلندی کا مظہر ہو گا ۔ قائد ا عظم محمد علی جناح نے نہ صرف مسلمانوں کو ایک آزاد و خودمختار ملک لیکر دیا بلکہ اس میں بسنے والے غیر مسلموں کیلئے بھی یہ اعلان کیا کہ وہ اس ملک میں اپنی مذہبی آزادی اور تشخص کے ساتھ برابر کے پاکستانی بن کر رہیں گے۔
لیکن افسوس صد افسوس کے وہ تنگ نظر مکتب فکر کہ جس نے سرسید احمد خان کو ’’عصری تعلیم‘‘ عام کرنے پر دائرہ اسلام سے نکالاجس نے اسلام کی آفاقی تعلیمات کی اشاعت پر علامہ اقبال کو کافر گردانا،جس نے پاکستان کو’’کافرستان ‘‘قرار دیا،جس نے قائد اعظم کو ’’کافراعظم‘‘ کے لقب سے نوازا۔وہ تنگ نظرو جاہل سوچ کچھ عاقبت نا اندیشوں کی شیطانی حکمتِ عملی سے آج پھر زور آور ہو گئی ہے۔آج کفر کے فتوؤں سے بات بہت آگے نکل گئی ہے۔ آج اسلام کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کے کٹے سروں سے فٹ بال کھیلا جا رہا ہے،بے گناہوں کو زندہ جلایا جارہا ہے، رحمت اللعالمین ؐ کے نام پر سینے گولیوں سے چھلنی کیئے جا رہے ہیں،محو عبادت مسلمانوں تک کو بموں سے اڑایا جا رہا ہے،علم جیسے ’’فریضہ‘‘ کو پھیلانے والوں اور حاصل کرنیوالوں کو چن چن کر مارا جا رہا ہے،شک کی بنیاد پر گلے کاٹ کر لاشیں چوکوں میں لٹکائی جارہی ہیں،مسلکی اختلاف پر برسوں سے دفن میتوں کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔ اسلام یعنی ’’امن‘‘کو ’’فساد فی الارض ‘‘ میں تلاش کیا جا رہا ہے۔دین کے نا م پر ابلیسیت رقصاں ہے ۔جنت کے نا م پر اس دنیا کو جہنم بنایا جا رہا ہے۔
ربا تیری جنت پچھے
دنیا دوزخ ہوگئی اے
ان حالات میں ’’یوم قائد ‘‘ پر صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’اے قائد!ہم شرمندہ ہیں‘‘لیکن کیا یہ کہنے سے ہماری ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے؟نہیں!بلکہ ہماری ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ ہم اظہار شرمندگی کے بعد اس عزم کا پختہ ارادہ کر یں اور اٹھ کھڑے ہوں ۔ ان تنگ نظروں کیخلاف کہ جو اسلام کے نام پر دھبہ ہیں ۔ جو ابلیس کے پیروکار جو یزیدکی معنوی اولاد ہیں ۔ ان کو نیست و نابود کر کے ایک اسلامی فلاحی مملکت کی تعمیر میں اپنے حصہ کا کردار ادا کریں۔اور آنیوالی نسلوں کے مجرم بننے کے بجائے ان کے لئے باعث فخر بنیں۔{jcomments on}