24

ایک پھیکی چائے پینی ہے،تمہاری میٹھی باتوں کیساتھ

دنیا بھر میں چائے کو منفرد مقام حاصل ہے پانی کے بعد سب سے زیادہ پیے جانے کا اعزاز چائے کو حاصل ہے چائے کی پتی 16ویں صدی میں چائنہ سے متعارف ہوئی برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے چائے کی پتی کو دنیا بھر میں متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا دیگر مشروبات و ڈرنکس کی طرح چائے کو پینے والے دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں ابتدا میں چائے کی پتی کو پانی میں جوش دے کر بطور دوا استعمال میں لایا گیا پھر رفتہ رفتہ چائے کی پتی کا سحر دودھ گرم پانی کی آمیزش کے بعد چائے کی صورت میں پروان چڑھتا رہا آپکی میز پر پڑے چائے کے کپ سے اب دنیا بھر میں اربوں روپے کا کاروبار وابسطہ ہے سالانہ 7بلین ٹن سے زائد چائے کی پتی کی پیداوار ریکارڈ ہوتی ہے

میری شامیں مہکتی ہیں تیری یادوں سے
میری چائے میں بھی شامِل ہے محبّت تیری

چائے کی پتی کی سالانہ 134.4بلین ڈالر کی خرید فروخت دنیا بھر میں ہوتی ہے دنیا کے دس ممالک کی اقتصادی و معاشی مضبوطی میں چائے کی پتی کا مرکزی کردار ہے چائنہ سالانہ 2.2 میٹرک ٹن پتی دنیا بھر میں فراہم کرنے والا پہلا ملک ہے جبکہ بھارت سالانہ 1.2ملین ٹن چائے کی پیداوار پر دوسرے نمبر پر کینیا 432.00ٹن کی پیداوار کے سات تیسرے نمبر پر سری لنکا 340000ٹن پر چھوتے نمبر پر ویتنام 214 ٹن چائے کی پتی کی پیداوار پر 5نمبر پر ہے جبکہ ترکی ایران انڈونیشیا ارجنٹائن جاپان کا شمار چھٹے سے دسویں نمبر میں ہوتا ہے پاکستان میں چائے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے پاکستان کے شہریوں و دیہاتوں میں چائے کو یکساں پسند کیا جاتا ہے خوشی کے لحمات ہوں چاہیے دکھ و غم کے مراحل دوستوں کی محفل ہو چاہیے فیملی میٹنگز چائے کے بغیر انھیں نامکمل سمجھا جاتا ہے ہم ایک دوسرے کو ملنے پر اسلام علیکم کے بعد جو پہلا جملہ بولتے ہیں وہ چائے سے جڑا ہوتا ہے کہ آئیے ! چائے پیتے ہیں ۔

غائبانہ شریک کر کے تمھیں
ایک چُسکی بھری ہے چائے کی

چائے پینے پلانے کی دعوت دینا ہمارے روزمرہ کے کاموں میں شامل ہو چکا ہے جس طرح چائے لورز میں اضافہ ہو رہا ہے اسی رفتار سے چائے کا معیار گرتا جا رہا ہے اب پرلطف و چاشنی والے چائے کے کپ کا حصول ایک خواب بن کر رہ گیا ہے بڑھتی مہنگائی کاروباری رحجان و زائد منافع کی سوچ نے پاکستانیوں سے چائے کی لذت و روایتی چاشنی کو چھین لیا ہے چائے کے ایک کپ کی قیمت 60روپے سے لیکر 90روپے بعض ہوٹلوں میں اعلی چائے کے نام پر فی کپ 120روپے سے 160روپے میں ہمیں تھمایا جا رہا ہے تفریحی مقامات پر تو چائے کے ایک کپ کی قیمت 180سے 250روپے میں پیش کیا جا رہی ہے جبکہ فائیو اسٹار ہوٹلز میں چائے کا ایک کپ کی قیمت 450روپے سے 790روپے تک چارج کی جا رہی ہے مگر افسوس چائے کے کپ کی قیمت تو بڑھ گئی مگر اسکا معیار وہ نہ رہا چائے کے نام پر ملاوٹ شدہ پتی و دودھ کو پانی میں جوش دے کر گاہک کو تھمایا جا رہا ہے ہوٹلوں و ٹی کارنر میں استعمال ہونے والے چائے کے کب اس انداز میں ڈیزائن کئے گے ہیں کہ اس میں چائے کے چند گھونٹ ہی سما سکتے ہیں چائے محبتوں کو پروان چڑھانے گزری یادوں کو محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ دوستوں کے درمیان ملاقاتوں کا اک مرکز ہے عالمی سطح پر سفارتکاری میں چائے کے کپ کو بڑی اہمیت حاصل ہے لیڈی ڈیانا سابق صدر اوباما پرنس ویلیم و دیگر عالمی شخصیات کی تصویر ہاتھوں میں چائے کا کپ تھامے ہمیں دکھائی دیتی ہیں امریکہ کی افغانستان سے واپسی کے وقت پاکستان کی اہم انٹیلجنس ایجنسی کے سربراہ جنرل فیض حمید کے ہاتھ میں چائے کی پیالی والی تصویر نہ صرف خوب وائرل ہوئی بلکہ اس پر ملکی و عالمی سطح پر چرچے بھی ہوئے ۔

دنیا کی الجھنوں سے دور رہتے ہیں
چائے پیتے ہیں سکون میں رہتے ہیں

ہمیں محبتوں کے اس مرکز کو بچانے کی ضرورت ہے چائے کے کپ کی روایات کو زندہ رکھنے کے لئے پنڈی اسلام آباد سمیت ملک کے ہر شہر میں چائے خانہ طرز کے چائے کے مراکز کا قیام عمل میں لانے کی ضرورت ہے چائے کی پیداوار کر کے جہاں متعدد ممالک اربوں روپے کما رہے ہیں وہاں اعلیٰ ذائقہ کی چائے بنا کر ٹی لورز کو تسکین فراہم کرنے والے بھی ماہانہ لاکھوں روپے کما کر روزگار بھی فراہم کر رہے ہیں متحدہ عرب امارات و دیگر ممالک میں چائے کے ہوٹلز اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں ہمسایہ ملک سے پڑھے لکھے نوجوان انوبھو دوبے جو اپنے گھر سےیو پی ایس کے امتحانات کی تیاری کے سلسلے میں بوائز ہوسٹل رہائش پذیر ہوا اسی دوران اس نے اپنے دوستوں سے ملکر چائے سٹہ کے نام سے ایک چائے کا ٹھابہ بنایا جو دیکھتے ہی دیکھتے بھارت کا ایک مشہور برانڈ کی حثیت اختیار کر گیا چائے سٹہ کی فرنچائز اب متحدہ عرب امارات و برطانیہ کینیڈا میں بھی کھولنے کی تیاری کی جا رہی ہے پنڈی اسلام آباد میں ذائقہ دار چاشنی والے چائے اب نایاب ہوتی جا رہی ہے صرف چند مقامات ایسے ہیں جہاں اچھی طور تسکین پہنچانے والی چائے ملے گی باقی تو ہر طرف چائے کے نام پر ابلتے پانی میں پتی دودھ کا رنگ دے کر بد ذائقہ سی چیز پیش کی جا رہی ہے ۔

جسے چائے پینا پلانا بھی آئے
یہ لڑکا اسی سے محبت کریگا

پاکستان سے بھی نوجوانوں کو چائے و اس کے سحر کو برقرار رکھنے کے لئے اس جانب قدم بڑھانا چاہیے نوکریوں کے حصار سے نکل کر کاروبار کو ترجیح دیں جدید انداز کے ٹی اسٹال کھول کر ماہانہ لاکھوں روپے کا کاروبار کیا جا سکتا ہے مگر شرط یہ ہے اس میں نیک نیتی و خلوص شامل ہو وفاقی و صوبائی حکومتیں اپنے زیر انتظام دفاتر نادرہ اراضی کمپوٹر ریکارڈ سینٹر ڈسٹرکٹ و تحصیل ہسپتالوں پبلک لائبریری ریونیو مراکز ٹیکس و پولیس اسٹیشن میں نوجوانوں و ضرورت مند طلبہ طالبات کو ٹی اسٹال کے لئے تھوڑی جگہ الاٹ کر کے نہ صرف انھیں باعزت روزگار و کاروبار فراہم کر سکتی ہے بلکہ اس سے روایتی دم توڑتی چائے کو نئی زندگی فراہم کر سکتی ہے چند دن بیشتر مجھے لیاقت باغ راولپنڈی میں قائم علامہ اقبال پبلک لائبریری چند گھنٹے گزارنے کا موقع ملا وہاں طلبہ طالبات کو محو ہو کر پڑھتے و ریسرچ سٹڈی کرتے دیکھ کر بڑی خوشی و اطمینان ہوا کہ ہمارے ملک کا مستقبل محفوظ ہے کیونکہ ہماری نوجوانوں میں محنت لگن کا جذبہ موجود ہے لائبریری کے پرکشش ماحول میں چائے کے کپ کی کمی کو شدت سے محسوس کیا ہمیں اب بھی اسی چاشنی بھری چائے کی ضرورت ہے جسے پی کر ہم محبتوں کے سلسلے کو قائم رکھ سکیں اسی امید پر اختتام کرتا ہوں کہ ہمارے نوجوان چائے اور چائے کے کپ سے جوڑی چاشنی و ذائقہ کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کر کے انوبھو دوبے کی طرح اسے سو کروڑ کے بزنس میں محنت و لگن سے ڈھال دیں گے ۔
خوبصورت شعر ملاحظہ فرمائیں
جسے چائے پینا پلانا بھی آئے
یہ لڑکا اسی سے محبت کریگا
(نوید ملک)

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں