ایک شخص سارے شہر کوویراں کر گیا/ آصف محمودشاہ

رب کائنات نے اس دنیاء کی تخلیق کے ساتھ ہی موت اور حیات کو رکھا اور قرآن پاک کے انتیس پارے میں اس کی صحیح تشریح کی ،ہم اگر اپنے ارد گرد نگاہ ڈالیں تو بے شمار لوگ جن میں کچھ ہمارے قریبی عزیز بھی ہیں جو ہم کو دل جان سے پیارے تھے لیکن

موت کے شکنجے نے ان کو ہم سے جدا کر دیا ان جانے والے دوستوں میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے جانے کے ساتھ سب کچھ لے جاتے ہیں بقول شاعر،، کہ بچھڑاکچھ اس ادا سے کہ رت بدل گئی —-ایک شخص سارے شہر کوویراں کر گیا،، اور بلاشبہ وہ شخصیت گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول کے سینئر ٹیچرراجہ فرخ سلطان تھے جن کے اس دنیاء سے جانے پر ہر عمر کا شخص آنسو بہا رہا تھا۔دسمبر1962کو ساگری کے قدیمی قصبہ میں راجہ دلاور کے گھر پیدا ہونے والی شخصیت جس کو قدرت نے شائید ایک عظیم شعبے کے لیے پیدا کیا تھا ۔1978میں ساگری سے ہی میٹرک کا امتحان سائنس کے مضامین میں امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور1982میں ایف ایس سی اور1984میں اس وقت کے مشہور معروف گارڈن کالج سے بی ایس سی پاس کیا ،اور پھر اسی شعبہ میں مارچ1986کو سائنس ٹیچر گورنمنٹ ہائی سکول دوبیرن سے کیا اس دوران وہ اپنی تعلیم سے غافل نہ ہوئے بلکہ1993کو پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کیا اور پھر کچھ عرصہ کے لیے وہ ڈیرہ خالصہ میں اپنی سروس کو سرانجام دیتے رہے اسی دوران کو ان کی پیشہ ورانہ خدمات کو دیکھتے ہوئے محکمہ تعلیم نے ان کو سینئر سائنس ٹیچر پرموٹ کر دیاگیا اس کے بعد 1999میں اپنے آبائی قصبہ میں قدیمی سکول ساگری میں ان کو تعنیات کر دیا گیا جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی ہو وہاں درس تدریس یقیناًایک خواب ہوتا ہے اور ان کا یہ خواب پورا ہوگیا،ساگری سکول میں انہوں نے تقریبا سترہ سال تک طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا،اور اپنے کیئریر کو انہوں نے انتہائی شاندار طریقہ سے سرانجام دیا دوراان سروس انہوں نے کہی ڈیوٹیاں کی جن میں بورڈ کے پیپر کی مارکنگ اور ایس ایس سی کے امتحانات میں بطور سپریٹنڈنٹ انہوں نے اپنی ڈیوٹی کو ایسے سر انجام دیا کہ کوئی بھی نہ تو ان کی ذات پر اور نہ ہی ان کے کام پر انگلی اٹھا سکا وہ کہا کرتے تھے کہ جس بھی شعبے میں کام کرو اپنے کام کو ایسے کرو کہ کوئی نہ تو آپ پر اور نہ ہی آپ کے شعبے پر انگلی اٹھا سکے،اپنی عزت کو خود بچاو آپ کے شعبے کی عزت خود بخود بچ جائے گی،اپنے ساتھی سٹاف کے ساتھ ان کاتعلق انتہائی اچھا تھا بہت ساتھی ان سے مزاق کیا کرتے تھے لیکن انہوں نے کبھی اپنے ماتھے پر بل تک نہ ڈالا آج ان کے وہی دوست ان کو یاد کر کے فرط جزبات پر قابو نہیں رکھ سکتے اور دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں جہاں ان کے کولیگ ان کو یاد کر کے روتے ہیں وہاں ان کے سٹوڈنٹس ان سے بھی بہت محبت کرتے تھے ان کے سٹوڈنٹس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے سبجیکٹ میں اتنے ماہر تھے کہ جب ہم ان کے حکم پر کتاب کھولتے تو بغیر دیکھے وہ سبق ایسے پڑھاتے کہ جیسے کتاب دیکھ کر پڑھانا مشکل ہوتا ہے وہ اپنے سٹوڈنٹس کے ساتھ انتہائی شفقت سے پیش آتے تھے کبھی کبھار وہ کسی کو ڈانٹ دیتے تو اسکا بھی ان کو رنج رہتا ۔اپنی زندگی میں انہوں نے نماز کو پابندی سے ادا کیا اپنے آخری دنوں میں جب ان کی صحت خراب ہوئی تو بھی انہوں نے نماز کی ادائیگی میں فرق نہیں آیا ۔پچھلے کچھ ماہ سے ان کی صحت خراب رہنے لگی تھی لیکن اپنی سکول والی ڈیوٹی میں انہوں نے لغزش نہ آنے دی اور اپنی خرابی صحت کے باوجود انہوں نے اپنی ڈیوٹی کو جاری رکھا کہتے ہیں کہ اچھے لوگوں کو رب جلدی اپنے پاس بلا لیتا ہے اور ان کے ساتھ بھی ایسے ہی ہواہفتہ26نومبر کو انہوں نے اپنی زندگی کی آخری نمازعشاء ادا کی،اور رات تقریبا12..50پر اپنے خا لق حقیقی سے جا کر ملے ان کی موت بھی ہارٹ اٹیک سے ہوئی اپبے سوگواران میں ایک بیٹاحیدر سلطان اوردوبیٹیاں اور بیوہ چھوڑ گے ان کے جانے کا غم سب کو ہے لیکن راجہ دلاور کے لیئے شائید بہت ذیادہ کیونکہ وہ اپنے دو جوان بیٹوں کا جنازہ اپنے بوڑھے کندوں پر اٹھا چکے ہیں یقیناًبوڑھے والدین کے لیے اپنی اولاد کے جانے کا دکھ بہت ذیادہ ہوتا ہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ان کو جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے درجات کو بلند کرے۔.{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں