این اے باون کے عوام/آصف محمود شاہ

کسی گاؤں میں ایک مغرور اور عورت رہتی تھی ،وہ اپنے ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دیتی تھی اس کے ارد گر اس کی تعریفیں کرنے کے لیے مخصوص عورتوں کا ایک ٹولا موجود رہتا تھا جو اس کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملاتی تھی ،اس میں ایک خامی تھی کہ وہ

ان تعریف کے پل باندھنے والوں کی بھی لوگوں کے سامنے کھری کھری سنا دیا کرتی تھی لیکن وہ اپنے مفاد کی خاطر چپ رہتی تھی اپنی شان و شوکت کو قائم رکھنے کے لیے وہ گاؤں کے لوگوں کی مدد بھی کرتی تھی ،لیکن اگر کوئی اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا تو وہ اس کو جھڑک دیتی،گاؤں میں کسی میں یہ جرات نہ تھی کہ کوئی اس سے بات چیت کرتا،اگر کوئی بات کرنا ہوتی تو وہی مخصوص ٹولہ بات کو اس تک پہنچا دیتا اس میں ایک بڑی خامی یہ تھی کہ گاؤں میں جب بھی کوئی مر جاتا تو وہ خود تو نہ جاتی بلکہ تعزیت کے لیے ااس گھر میں ایک پیڑھی بھیج دیتی پھر خدا کاکرنا ایسا ہوا کہ اس مغرور عورت کے گھر بھی فوتگی ہو گئی تو گاؤں کے سیدھے سادھے لوگوں نے اس بدلہ لینے کی ٹھان لی اور گاؤں کے لوگ خود نہ گئے بلکہ انہوں نے بھی ایک ایک پیڑھی اس کے گھر بھیج دی فوتگی والا گھر لوگوں کے بجائے پیڑھیوں سے بھر گیااس عورت کو بہت شرمندگی ہوئی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا بلکل اسی طرح کی ایک کہانی اس وقت این اے 52میں بھی چل رہی ہے جہاں کی عوام کو تین حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے ایک وہ عوام ہے جن کے گھر میں اگر کوئی فوتگی ہو جائے تو ہمارے محرم چوہدری نثار علیخان خود بنفس نفیس تشریف لاتے ہیں اور اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہیں اور دلجوئی کی باتیں کرتے ہیں دوسراطبقہ وہ ہے جس میں وہ خود تو تشریف نہیں لا سکتے لیکن ان کے معتمدخاص تشریف لاتے ہیں بلکہ وہ چوہدری صاحب کی طرف سے ایک عدد تعزیت کا خط جسے آپ موجودہ دور کی پیڑھی کہ سکتے ہیں لاتے ہیں اور با ر بار چوہدری صاحب کی مصروفیت کا ذکر کرتے ہیں اور کوئی ایسا بندہ اللہ کو پیارا ہوجائے جو الیکشن میں اثر انداز ہو سکتا ہو تو ایک لاو لشکر بھی معتمد خاص کے ساتھ ہوتا ہے اور باقاعدہ پہلی صف میں جنازہ ادا کیا جاتا ہے اب بات کی جائے تیسرے طبقے کی جن کا مرنا اور جینا کے کوئی مسلہ نہیں ہے ان بیچاروں کے مرنے اور جینے میں بعد یوسیز کے چیئرمین بھی شرکت کرنا پسند نہیں کرتے بات جنازوں میں شرکت کی نہیں بلکہ پالیسی کی ہے جو اس حلقہ میں استعمال کی جارہی ہے کیا غریب عوام کی ووٹیں نہیں ہوتی یا ان کی ووٹوں کا وزن کم ہے یہ وہی عوام ہے جن کی ووٹوں کی بدولت چوہدری صاحب آج اسمبلی میں گرج برس رہے ہیں،دوسری طرف ہمارے ایم پی اے قمرالسلام راجہ بھی اب تقریبا سیاسی بن چکے ہیں اور وہ بھی اب مخصوص تقریبات میں شرکت کرتے نظر آتے ہیں الیکشن کے دنوں میں گھر گھر کے دروازے کھٹکٹانے والے یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسی عوام کی بدولت ان کی کروفر ہے عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے میں پھر 5سال کا انتظار کیوں اب عوام کی حالت ایسی ہوچکی ہے جیسے طویل خشک سالی میں آسمان پر بادل امڈ آئیں تو سب کی نظریں آسمان کی جانب ہو تی ہیں۔این اے52کے عوام کو کب گلی نالی اور روڈ کی سیاست سے چھٹکارا ملے گا اس حلقہ کی بنیادی ضرورت کی بنیادی ضرورت ،کالجز،گیس پانی جیسے مسائل ہیں بدقسمتی سے اس حلقہ کو جو بھی ملا اس نے اس عوام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور بعد میں یہ جا وہ جا؟اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسی حلقہ کے ایک مخصوص حصہ پر اربوں کے فنڈز جاری کیے گئے انہوں نے تو نعرے لگانے ہیں لیکن اسی حلقہ کے ایک طبقہ سے سوتیلی ماں جیسا سلوک سمجھ بالا تر ہے اس حلقہ کی غیور عوام اپنے تن من دھن سے جس کے ساتھ ہوتی ہے لیکن اس عوام کو چکمہ دینے والوں کے لیے کہیں جگہ بھی نہیں رہتی گلیاں نالیاں اور روڈ بھی ضرورت ہیں لیکن سب سے زیادہ اہم تعلیمی اداروں کا ہوتا ہے لیکن اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود چوہدری نثار علی خان اس علاقہ میں کوئی بڑا منصوبہ نہ دے سکے جو انقلاب لا سکے ،اب وہ وقت دور نہیں جب اس حلقہ کی عوام کے ساتھ سیاسی چالیں چلنے والوں کا انجام بھی اس گاوں کی عورت جیسا ہو گا کہ الیکشن کے دنوں میں ووٹوں کے بجائے پیڑھیوں کا ایک انبار ہو گا اور یہ فیصلہ حلقہ کے منتخب نمائندوں نے کرنا ہے کہ انہوں نے اسمبلیوں میں رہنا ہے یا پیڑھیوں کا کاروبار کرنا ہے۔{jcomments on}

 

اپنا تبصرہ بھیجیں