227

ایمبولینس میں بچی کی پیدائش

انسانی فطرت اتنی الجھی ہوئی اور سخت ہوگی یہ خدا کی قدرت پہلے سے ہی جانتی تھی تب ہی تو اللہ تعالیٰ نے زندگی‘موت اور رزق جیسے معاملات کو اپنے ہاتھ میں ہی رکھا اس کے باوجود بھی کچھ لوگ ان معاملات پر اپنی برتر حیثیت اور اختیارات کی دھاک بٹھا کر خوش ہوتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ قانون کہیں کا بھی ہو اگر اس کا نفاذ مکمل دیانت داری سے کیا جائے تو معاشرے میں نمایاں تبدیلیاں نظر آتی ہیں معاشرہ افراد کے اجتماع کانام ہے اور اگر ہماری سوچ اجتماعی نہیں ہوگی تو معاشرے میں بہتری کی امید بھی نہیں ہوگی انسان اور حیوان میں احساسات ہی کا تو فرق ہوتا ہے انسان دیکھ بھال اور پیارومحبت صلہ رحمی جیسے اوصاف کا مالک جبکہ جانور صرف چیر پھاڑ دینے کی فطرت کا مالک ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی انسان حیوان سے بھی بڑا حیوانی کام سرانجام دے رہا ہوتا ہے ہم ایک لاچار‘معصوم ومظلوم قوم ہیں ہمارے ٹیکسوں سے پلنے والے ملازمین پھر خواہ وہ کسی بھی ادارے سے تعلق رکھتے ہوں ہم پر آقاؤں کی طرح مسلط ہیں ہماری خدمت اور دیکھ بھال پر معمورہوں وہ خود کو حاکم اور ہم رعایا کو محکوم تصور کرتے ہیں۔سوشل میڈیا کے اس دور میں اب کوئی بات پہلے کی طرح پوشیدہ نہیں رہتی پل پل کی خبر وائرل ہوتی ہے روزانہ کی بنیاد پر ایسے درجنوں واقعات نگاہ سے گذرتے ہیں کہ جنہیں سن کر یا پڑھ کر انسانیت کے دم توڑ جانے کا تصور گہرا ہوجاتا ہے گذشتہ روز ایک واقعہ نظر سے گذرا جسے پڑھ کر دل دہل گیا۔ٹی ایچ کیو کلر سیداں میں قائم گائنی وارڈ میں لائی جانے والی روبینہ نامی حاملہ خاتون کو حسب سابق اور حسب عادت پیچیدہ کیس قرار دے کر راولپنڈی ریفر کیا گیا۔جس کے لیے 1122کلر سیداں کی خدمات لی گئیں۔دستیاب معلومات کے مطابق خاتون کی حالت کے پیش نظر ورثاء اور 1122کے عملے نے میڈیکل اسٹاف کو ساتھ بجھوانے کی اپیل کی جو سوشل میڈیا کے مطابق نہیں ہوسکا۔خاتون کو راولپنڈی لے جاتے ہوئے راستے میں بگڑتی طبیعت کے باعث 1122 کے اہلکار نے اپنی سی کوشش کرتے ہوئے گاڑی کے اندر ہی بچے کی پیدائش کروا لی۔بعدازں زچہ وبچہ کو راولپنڈی ہولی فیملی اسپتال پہنچا دیا گیا۔اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اس کا جواب کون دے گا کہ اگر کیس واقعی پیچیدہ تھا تو ایک ان ٹرینڈ نوجوان نے نارمل ڈلیوری کس طرح کروا لی۔جو کیس میڈیکل سے نابلد نوجوان نارملی طریقے سے کرواتا ہے وہ ڈاکٹر نے کیوں ریفر کیا؟؟مسیحائی کے نام نہاد دعوے دار اس پر کیا کہیں گے۔کیا کیس ریفر کرنے والی لیڈی ڈاکٹر ڈیوٹی سے گریزاں تو نہ تھی؟؟؟اور جان بوجھ کر ایک نارمل کیس کو عین وقت ہونے کے باوجود ریفر کیا اور کیا ٹی ایچ کیو میں تواتر سے تو نہیں ہوتا سوشل میڈیا پر مذکورہ واقعے کی تصویر اور خبروائرل ہونے پر ٹی ایچ کیو کلرسیداں کی انتظامیہ نے حسب رواج خاتون کے خاوند سے ایک تحریر لکھوا لی جسے بچاؤ کے لیے پیش بندی
کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ یہاں معافی تلافی کروانے والے چوہدراہٹ کے شوقین بہت زیادہ ہیں اب خاتون کے خاوند سے تحریر کس طریقہ کار کے مطابق لی گئی یہ راز ہے محکمہ ہیلتھ پنجاب کو اس معاملے پر ایک انکوئری ضرور کروانا چاہیے اور اس انکوائری کو پبلک بھی کیا جائے تاکہ اس شرمناک واقعہ بارے عوام کو بھی آگاہی ہوسکے۔ کیا ایسا ممکن ہوگا؟؟؟؟

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں