ایشیائی ممالک اچھے تعلقات کی اہمیت کو سمجھیں 234

ایشیائی ممالک اچھے تعلقات کی اہمیت کو سمجھیں

ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں تو زندگی پر سکون ہوتی ہے لیکن اگر ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بہتر نہ ہوں تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے انسان ہر وقت اسی فکر میں رہتا ہے کہ ہمسایوں کی شر انگیزیوں سے کس طرح بچا جا ئے اور اگر خود شر انگیز ہے تو اسی کوشش میں رہتا ہے کہ دوسرے کو کیسے نقصان پہنچایا جائے؟ مملکت خداداد پاکستان کو بہت سے ایسے ہمسایوں سے واسطہ ہے جو یا تو خود شر انگیز ہیں یا دوسروں کی شر انگیزی سے متاثر ہیں اور جو خود شرانگیز ہیں وہ اپنی ان عادات کی بدولت نہ تو وہ خود سکون سے رہتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو امن سے رہنے دیتے ہیں۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ اگر تعلقات بہتر نہ ہوں تو کوئی بھی ملک خوشحال نہیں ہو سکتا، ہمسایوں کے ساتھ بہتر تعلقات کے بغیر معاشی ترقی بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ جب ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہوں گے تو ہر وقت ان کے فسادات سے بچنے کی فگر لاحق رہے گی یا انہیں نقصان پہنچانے کی سعی کرتے رہیں گے اور ہمسایوں کو نقصان پہنچانا یا ان کی شرانگیزیوں سے بچنا اتنا آسان نہیں ہوتا اس کے لیے فوج رکھنی پڑتی ہے اس کے لیے حکمت عملی وضع کرنی ہوتی ہے، فوج پر ملکی بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ خرچ ہوتا ہے جس سے ملک اور غریب عوام محروم ہو جاتے ہیں، اس طرح کے ممالک کو بہت زیادہ اسلحہ رکھنا پڑتا ہے اور یہ ممالک عموماً خود اسلحہ سازی کے قابل نہیں ہوتے لہٰذا انہیں دیگر ترقی یافتہ ممالک سے اسلحہ خریدنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ملکی خزانے پر بہت زیادہ دباؤ پڑتا ہے اور اس قسم کی دشمنیاں رکھنے والے ممالک کا خزانہ اتنا اسلحہ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا لہٰذا ایسے ممالک کو ترقی یافتہ ممالک سے قرض لینے پڑتے ہیں نتیجتاً ایسے ممالک غربت اور قرضوں میں محصور ہو کر رہ جاتے ہیں، یہ ممالک اپنے ملک میں صنعتیں قائم کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے ملک کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جس کی وجہ سے یہ ممالک معاشی لحاظ سے بھی نہایت کمزور ہوتے ہیں اور امداد کے لیے ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہی دیکھتے رہتے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک ان ممالک کو امداد دے کر انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔موجودہ دور معاشی میدان میں مقابلے کا دور ہے، ہر ملک معاشی میدان میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر کسی ملک کا دفاع مضبوط نہیں لیکن معیشت مضبوط ہے تو اسے کسی کی پرواہ نہیں۔ اسے دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن کسی ملک کا دفاع مضبوط ہو لیکن اس کی معیشت کمزور ہو تو وہ دربدر بھیک مانگنے پر مجبور ہوتا ہے، دنیا میں اس کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ جس کا جی چاہتا ہے اسے ضرورت کے وقت امداد فراہم کر کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جن ممالک کے ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہوتے ہیں انہیں نہ تواپنے دفاع کی زیادہ فکر ہوتی ہے اور نہ ہی بہت زیادہ فوج اور اسلحہ جمع کرنے کی پریشانی۔ ایسے ممالک میں امن و خوشحالی رہتی ہے اور یہ ممالک ترقی کی راہوں پر گامزن رہتے ہیں کیونکہ نہ تو وہ لاکھوں کی تعداد میں فوج رکھتے ہیں اور نہ ہی بہت زیادہ اسلحہ جمع کرتے ہیں وہ سارا بجٹ اپنے ملک اور عوام پر خرچ کرتے ہیں۔ ملک میں صنعتیں لگاتے ہیں، وہ قدرتی وسائل اور معدنیات وغیرہ سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور ترقی کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی برآمدات بہت زیادہ ہوتی ہیں جن کے مقابلے میں درآمدات بہت کم ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی معیشت نہایت مضبوط ہوتی ہے۔ تقریبا بہتر سال قبل مغربی ممالک بھی ہمارے ممالک کی طرح ایک دوسرے کے سخت دشمن تھے وہ ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلانے میں مشغول رہتے تھے ہر وقت ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتے تھے جس کے نتیجے میں انہوں نے دو بڑی جنگیں لڑیں اور بہت زیادہ نقصان اٹھایا جب انہوں نے ان جنگوں کے اثرات کا جائزہ لیاتو انہیں سوائے نقصان اور تباہی کے کچھ نظر نہ آیا۔ بہت سے ممالک کی معیشت تباہ ہوئی، کروڑوں لوگ ہلاک ہو گئے مگر حاصل کچھ نہ ہوا لہٰذا انہوں نے آئندہ جنگوں سے توبہ کر کے آپس میں اتحاد و اتفاق کی فضا پیدا کی بہت سے معاہدات ہوئے بہت سے اتحادات بنے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ وجود میں آیا اور سب سے بڑھ کر انہوں نے اپنے لیے ایک مشترکہ فوج نیٹو کے نام سے تشکیل دی جو تمام رکن ممالک کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار سمجھی گئی جس کی وجہ سے ان ممالک کو اپنی بہت زیادہ علیحدہ فوج رکھنے کی ضرورت نہ رہی اور وہ خود آپس میں اچھے ہمسایوں کی طرح رہنے لگے، اسی اچھی ہمسائیگی کی بدولت انہوں نے اپنے ممالک کو محفوظ کرلیا اور اپنے خزانے کا رخ معیشت کی طرف موڑ لیا اور خوشحال زندگی بسر کرنے لگے۔ ہمارے ممالک بالخصوص پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان، ایران اور چین کو بھی چاہیے کہ وہ مغربی ممالک کی تاریخ سے فائدہ اٹھائیں جنہوں نے جنگیں لڑیں مگر ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا آخر انہیں ہمسایہ ممالک کے ساتھ اتحاد کی طرف آنا پڑا لہٰذا ہم ان کی تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے جنگوں کا نقصان اٹھائے بغیر ہی آپس میں اتحاد قائم کر لیں اور اچھے ہمسایوں کی طرح زندگی بسر کریں۔ آپس میں سیاسی اور معاشی معاہدات کریں، ایک مشترکہ فوج تشکیل دیں تاکہ ہم بھی ملکی بجٹ جو ہم اپنے دفاع پر خرچ کرتے ہیں اپنے ممالک کی معیشت پر خرچ کرنے کے قابل ہو جائیں اور اپنے ممالک کے وسائل سے استفادہ کریں اور اپنے عوام کو ترقی و خوشحالی کی زندگی بسر کرنے کے قابل بنا سکیں۔ یوں ہمارے ممالک پر امن ہو جائیں گے ان کا دفاع مضبوط ہو جائے گا اور کسی تیسری طاقت کو ان کی طرف میلی نگاہ سے دیکھنے کی بھی جرأت نہیں ہو گی

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں