ایس پی کی کھلی کچہریاں پولیس کا اعتماد بحال کرنے میں ناکام/چوہدری محمد اشفاق

ایس پی صدر ڈاکٹر غیاث گل ہر پندرہ دن کے بعد کلر سیداں میں کھلی کچہری کا انعقاد کرتے ہیں جمعرات کے دن دو بجے بھی ان کی طرف سے کلر سیداں ٹی ایم اے حال میں ایک کھلی کچہری لگائی گئی جس میں عوام کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی لیکن حیرانگی

اس بات پر ہے کہ اتنی زیادہ تعداد میں شکایات صرف چند افراد نے پیش کی ہیں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر عوام کو پولیس سے متعلق شکایات نہیں تھیں تو کھلی کچہری میں جاتے کس لیے ہیں میں پچھلے چند ماہ سے کوریج کے سلسلہ میں ہر کھلی کچہری میں موجود ہو تا ہوں اور میرے خیال میں ایس پی صدر کا مقصد پولیس سے متعلق عوامی مسائل حل کرنا نہیں ہے بلکہ تھانہ کلر سیداں کو کلیئر نس کا سرٹیفیکیٹ دینا ہے اور پولیس پر لگے بد نامی کے داغ دھونا ہے اگر مقصد عوامی مسائل حل کرنا ہوتا تو ایسے افراد جو پچھلی کئی کچہریوں میں اپنے مسائل پیش کر چکے ہیں اور وہ لوگ اس وقت بھی دھکے کھا رہے ہیں ان کے مسائل جوں کے توں پڑے ہوئے ہیں اور کچھ افراد نے مایوس ہو کر کھلی کچہری میں آنا ہی چھوڑ دیا ہے اور اپنے مسائل کا حل اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا ہے ایک شخص ارشد محمود بھٹی کا سب کے سامنے یہ کہنا کہ ہم نے دوبیرن کلاں میں پولیس چوکی کا مطالبہ کیا تھا اور اب ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہاں پر پولیس چوکی قائم نہ ہو کیوں کہ جہاں پر پولیس موجود ہو تی ہے وہاں پر جرائم زیادہ ہوتے ہیں اگر صرف اس بات پر غورکیا جائے تو بہت سے سبق حاصل ہوتے ہیں پولیس کی کارکرگی درست کرنا کسی کے بھی بس کی بات نہیں ہے پولیس ہمیشہ سے اپنی مرضی کرتی آرہی ہے وہ قانون نہیں بلکہ رواجوں کو ترجیح دیتی ہے اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ شاہ باغ باغ بوٹا کے مقام پر 27 اپریل 2015 کی شب 17 سالہ حافظ قرآن عاقب ولد غلام حسین سکنہ باغ بوٹا کو مسجد میں عشاء کی نماز کے بعد گھر واپسی پر قتل کر دیا گیا گھر والوں نے تلاش کرنا شروع کیا تو روڈ کنارے اس کی لاش ملی جسے گلا دبا کر قتل کر دیا گیا تھا جس پر مقتول کے گھر والوں نے امام مسجد عبدالحمید اور اس کی اہلیہ پر شک ظاہر کیا تھا کہ ان دونوں نے ہمارے بیٹے کو قتل کیا ہے تھانہ کلر سیداں پولیس نے آٹھ ماہ تک اس قتل کی تفتیش کی اور اس دوران حافظ وامام مسجد عبدالحمید کو گرفتار کرنے کے باجود اس سے حقائق اگلوانے میں ناکام رہی اور بعد ازاں امام مسجد کو بے گناہ کرار دے کر جیل بھجوا دیا تھا اور بعد میں امام مسجد کو ضمانت پر رہائی مل گئی تھی مدعی پارٹی نے پولیس کی تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے سی پی او راولپنڈی سے کسی ایماندار پولیس آفیسر سے دوبارہ تفتیش کی درخواست کی تھی جس پر سی پی او کو کلر سیداں میں کوئی بھی ایماندار پولیس آفیسر نظر نہ آیا اور انہوں نے اس کیس کی تفتیش ایس ایچ او کینٹ کے سپرد کی تھی جس پر کار وائی کرتے ہوئے اور اپنی ایمانداری کا ثبوت دیتے ہوئے ایس ایچ او کینٹ نے اس کیس کا مکمل سراغ لگاتے ہوئے امام مسجد اور اس کی اہلیہ کو ملزمان نامزد کر دیا ہے اور اس کیس کی مکمل رپورٹ تیار کر کے ایس پی انسویسٹگیشن کو روانہ کر دی ہے یہ بھی انتہائی تشویش والی بات ہے کہ ایس ایچ او کینٹ نے اتنا مشکل معاملہ بہت جلدی حل کر دیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس تھانہ کلر سیداں اتنا لمبا عرصہ کیا کرتی رہی ہے اور اس کو ملزمان سے کیا ہمدردی تھی کہ وہ ان سے سچ اگلوانے میں ناکام رہی ہے اور اگر غور کیا جائے تو یہ پولیس کی طرف سے ایک واضح پیغام عوام کو آگیا ہے کہ اب کلر سیداں کے بجائے دوسرے تھانوں میں اپنے مشکل کیسز کی تفتیش کروائی جائے کیوں کہ تھانہ کلر سیداں اچھی تفتیش نہیں کر سکتا ہے مقامی پولیس کا کا م صرف اتنا باقی رہ گیا ہے کہ بے گناہ افراد کو بے بنیاد مقدمات میں پھنسا دینا معمولی درخواستوں پر لوگوں کو تنگ کرنا اور اصل ملزمان کو چھوڑ دینا ہے جب کہ اس علاقہ میں جن لوگوں کے ساتھ بھی بے پناہ مظالم ہوئے ہیں وہ اب بھی روتے پھر رہے ہیں اور ان کو کہیں سے بھی انصاف نہیں مل رہا ہے ایسے حالات میں ایس پی صدر کلر سیداں پولیس سے متعلق اپنے آپ کو کس طرح مطمئن کر رہے ہیں ہاں اتنا ضرور ہے کہ پہلی دفعہ اس آخری کھلی کچہری میں ایس پی صدر ڈاکٹر غیاث گل کی طرف سے کلر سیداں پولیس کی کار کر دگی کو مایوس کن قرار دیا ہے یہ بھی ہمارے لیے ایک اہم پیش رفت ہے اگر واقعی ایس پی نے پولیس پر عوامی اعتماد بحال کروانے کی کوشش شروع کر دی ہے توا س کے لیے انہیں بہت کچھ کرنا پڑے گا اول جب کھلی کچہری لگائی جائے تو ایس ایچ او صاحبان اور دیگر پولیس آفیسرز کو الگ اور ایک سائیڈ پر بیٹھا یا جائے اور ایس پی بالکل الگ بیٹھے تاکہ عوام کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں دوسرا ایس پی کو اس بات کا خاص خیال رکھنا ہو گا کہ وہ اپنے ساتھ پرائیویٹ لوگوں کو نہ بیٹھائیں ان کے آس پاس اور ار د گرد صرف سرکار اہلکار ہی ہونے چاہئیں اور دوسرا کچھ لو گ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی بات سب کے سامنے بھی کرنے سے گریزاں ہوتے ہیں ایسے افراد کے لیے بھی ایس پی کو کم از کم آدھ گھنٹا الگ سے مختص کرنا چاہیے تاکہ لوگ اپنی شکایات کھل کر پیش کر سکیں پولیس کر کار کر دگی صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طو رپر نظر آنا چاہیے محض زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا پولیس کو اپنے رویے میں تبدیلی لانا پڑے گی بصورت دیگر عوام کی طر ف سے پولیس کارکردگی پر انگلیاں اٹھتی ہی رہیں گی ۔{jcomments on}

 

اپنا تبصرہ بھیجیں