ایس ایچ او کا عوام کے ساتھ گستاخانہ رویہ

قارئین کرام!اداروں کی مضبوطی کیلیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مناسب قانون سازی اور انہیں بااختیار بنانا ہوتا ہے، گزشتہ دنوں سیالکوٹ میں افسوسناک واقعہ پیش آیا، پولیس تین گھنٹے تک سوئی رہی، جب آنکھ کھلی تو پورے ڈویژن کی پولیس صرف ایک کام پہ لگ گئی، پکڑ دھکڑ میں کئی بیگناہ بھی اٹھا کر سلاخوں کے پیچھے بھیج دیئے، ایک اور واقعہ مثالی شہر اسلام آباد میں پیش آیا، جہاں چار ڈکیت گھر میں داخل ہوئے، اسی گھر کے سامنے واقع سڑک پر پولیس کی گاڑی سڑک پہ گشت کر رہی تھی، متاثرہ شخص کے شور واویلا کرنے پر ملزمان فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہو گئے اور پولیس اہلکار تماشائی بنے کھڑے نہیں رہے بلکہ وہ بھی وہاں سے بھاگ گئے، جو مثالی پولیس کے مثالی کام کی زندہ مثال ہے پنجاب کی پولیس کو مثالی بنانے کیلیے ایک انسپکٹر جنرل کو خیبرپختونخوا سے لایا گیا تھا جو مانیکا فیملی کی ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھ گیا اور استعفیٰ دے کر چلا گیا، پھر پانچ آئی جی تبدیل کئے گئے مگر ہر بار پولیس نے کوئی نہ کوئی نیا بلنڈر کر کے اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا، راولپنڈی کی تاریخ میں ڈی آئی جی محمد احسن یونس وہ واحد سی پی او رہے ہیں جنہوں نے پولیس اور عوام کیلیے عملی اقدامات کئے،اسی وجہ سے اس شخص کو اہلیان راولپنڈی نے یاد رکھا ہوا ہے،اب وہ آئی جی اسلام آباد تعینات ہوئے ہیں
جو کہ اسلام آباد پولیس کا قبلہ درست کرنے کی سمت درست پیش رفت ہے گوجرخان کے باسی گزشتہ کئی ماہ سے چوروں ڈکیتوں کے رحم و کرم پر ہیں، ایک بار پھر راقم انسپکٹر میاں محمد عمران عباس شہید کی تعریف کرنے پر مجبور ہے کہ کیا کمانڈ اینڈ کنٹرول تھا اس فرد واحد کا اور اپنی ٹیم پر اس قدر گرفت مضبوط ہوتی تھی کہ کوئی اس کی مرضی کے بغیر تھانہ نہیں چھوڑ سکتا تھا، انکے ایک ماتحت سے بات ہوئی تو کہنے لگا کہ کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کب کس جگہ ریڈ کرنا ہے، سب پلان میاں عمران کا ہوتا تھا، باقی سب کو صرف ساتھ جانا ہوتا تھا، یہ اس شخص کو خدا کی جانب سے خداداد صلاحیت عطا تھی کہ وہ جس مشن پہ نکلتا تھا اسے پایہ تکمیل تک پہنچا کر دم لیتا تھااب موجودہ ایس ایچ او گوجرخان کے پاس نہ تو جرائم کنٹرول کرنے کی صلاحیت ہے اور نہ موصوف کے پاس ٹیم ورک ہے، واردات در واردات اور مقدمات در مقدمات درج کرنے تک کارکردگی ہے، دو تین سو گرام چرس برآمد کر لینا بڑی کارکردگی سمجھی جا رہی ہے، باقی کسی واردات کو ٹریس کرنے کیلیے ان کے پاس نہ کوئی حکمت عملی ہے اور نہ صلاحیت۔ یوں لگتا ہے جیسے پولیس چوروں ڈکیتوں کی معاون و مددگار ہے، کیونکہ کوئی چور ڈکیت پکڑا جو نہیں جا رہا۔۔۔ اور جب میڈیا پہ خبریں چلتی ہیں، کرائم ڈائریاں لکھی جاتی ہیں تو صحافیوں، تجزیہ کاروں سے ناراض ہوتے ہیں، حتیٰ کہ نجی محفلوں میں گالیاں تک دینے سے گریز نہیں کرتے اور ان کے اس گھٹیا فعل کی بابت ہمیں بارہا شکایات موصول ہو چکی ہیں جس پر گوجرخان کے صحافی جلد لائحہ عمل ترتیب دینے والے ہیں۔۔۔ عوام کے موجودہ ایس ایچ او موصوف کے بارے میں یہ تاثرات ہیں کہ ہم تو ڈرتے تھانے کا رُخ نہیں کرتے کیونکہ نقصان الگ ہوا ہوتا ہے اور موصوف آگے تپے بیٹھے ہوتے ہیں اور سائلین کو جھڑکنا اور بدتمیزانہ لہجے میں بات کرنا انکا وطیرہ بن چکا ہے، ایسی صورتحال میں جہاں احسن یونس بھی موجود نہیں اور سی پی او اطہر اسماعیل، ایس پی صدر، ایس پی آپریشنز سمیت افسران صورتحال کی نزاکت کو نہیں سمجھ رہے تو وہاں گوجرخان کی عوام نے چوروں ڈکیتوں کے رحم و کرم پر ہی زندگی گزارنی ہے، حالانکہ عوام ہر چیز پہ ٹیکس دیتے ہیں مگر ان کی جان و مال کی حفاظت کون کرے گا؟؟؟ اگر عوام نے ہی خود حفاظت کرنی ہے تو ٹیکس ختم کر دینے چاہئیں، عوام کو ان کے حال پہ چھوڑ دینا چاہیے بصورت دیگر پولیس کے اعلیٰ افسران کو گوجرخان تھانے کی کمان تبدیل کرنا ہو گی، یہاں پر تعینات نکمے و نااہل تفتیشی افسران کو بھی تبدیل کرنا ہو گا جنہوں نے صبح شام عوام کو ذلیل کرنا معمول بنا رکھا ہے اور عوام کو انصاف ملتا نظر نہیں آ رہا منتخب نمائندوں کو اس بات کی قطعی کوئی فکر نہیں کہ عوام لُٹ رہی ہے، یا عوام کیساتھ اداروں میں کیسا سلوک کیا جا رہا ہے، انکو میاں عمران عباس اور غلام سرور سے پریشانی تھی سو انہوں نے انکے تبادلوں کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا، اب بیشک عوام لُٹتی رہے، ہمارے ایم پی اے موصوف دبئی میں موج مستی کرنے میں مصروف ہیں، انکا بھی حق ہے زندگی جینے کا، انجوائے کریں اور عوام مزید دو سال صرف صبر کریں اور ہاں آپ نے ”گھبرانا“ بالکل بھی نہیں والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں