50

ایران کے لیے مسلم دنیا کا بہترین تحفہ


(عبدالحنان راجہ)

جارح وزیر اعظم نیتن یاہو اپنی جنگی کابینہ کے ساتھ محفوظ بنکر میں بیٹھے ایران کے جوابی رد عمل پر حیران تھے اور پریشان بھی کہ ایرانی میزائل امریکہ، فرانس اور خود اسرائیلی ڈیفنس سسٹمز کو عبور کرتے کیسے تل ابیب اور اہم دفاعی ترین تنصیبات تک آن پہنچے اور باوجود پہلی کاری ضرب کے، ایران چند گھنٹوں کے اندر کیسے اتنے شدید ردعمل کے قابل ہوا۔ اسرائیلی ماہرین یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ غداروں، موساد و را کے مضبوط نیٹ ورک کی اطلاعات کی روشنی میں سو فی صد درست اہداف پر حملوں اور ائیر ڈیفنس سسٹم کے ہیک کے بعد گھنٹوں میں اتنا طاقتور ردعمل ممکن ہو سکتا ہے اسی لیے وہ اب ایران کے نامعلوم اور مضبوط عسکری مددگار کی تلاش میں سرگرداں اور مسلم ملک کے خلاف پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔ اسرائیل پریشان اس لیے بھی کہ اسے ایرانیوں کے جذبہ انتقام کا بھی پتہ ہے اور ان کی صلاحیتوں کا بھی ادراک۔ جارح اسرائیل نے اپنے تئیں پہلے کامیاب حملے میں ایران کی کمر توڑ دی تھی جبکہ دنیا بھی یہی سمجھ رہی تھی کہ اتنے نقصان کے بعد ایران جلد سنبھلنے کا نہیں۔ مگر حیران کن طور پر اس کی جنگ میں واپسی حیران کن بھی تھی اور خوش کن بھی۔ مگر یہ طے ہے کہ ایرانی اب بدلہ چکانے کے لیے جان اور نقصان کی پرواہ سے آزاد ہو چکے جبکہ سفارتی اور مذاکرتی بندشیں اسرائیل نے جارحیت کر تڑوا دیں۔
دور جدید میں یہ حقیقت کہ جس سے واسطہ بھی ہے اور زہر ناگ بھی کہ ارائش و اسائش کی اس دنیا میں کہ جہاں تیز ترین ذرائع مواصلات ، پرتعیش محلات اور سحر انگیز مقامات، بڑی بڑی درسگاہیں اور اجتماع عالم کے لیے آسمان کو چھوتی عمارتیں، انسانی حقوق اور امن عالم کی باتیں، مگر ان سب کے باوجود انسانیت اتنی غیر محفوظ کبھی نہ تھی کہ گزشتہ صدی سے مآ قبل تک اسرائیلی سازشیں تھیں اور نہ امریکہ اتنا طاقتور۔ مسلمانوں کی بیچارگی بھی کچوکے لگاتی ہے اور کفر کی طاقت بھی پریشان کرتی ہے۔ مگر حقیقت سے آنکھیں چرانے سے حقائق بدلنے کے نہیں۔ فی الوقت تو طاقت کے حصول کے تمام دروازے مسلم امہ پر بند کرنے کی آخری کوشش بھی کر ڈالی گئی۔
ایران کے جوہری پروگرام اور پاکستانی کی ایٹمی قوت کو دنیا کے لیے خطرہ قرار دینے والے سبھی ممالک ترقی یافتہ اور بظاہر تہذیب یافتہ بھی۔ ایسے تہذیب یافتہ اب ہماری سیاست میں بھی در آئے ہیں کہ جن کا فلسفہ ہی نرالا۔ نام نہاد مہذب یہ نہیں جانتے کہ پاکستان کی ایٹمی طاقت نے آج تک جارحیت کی اور نہ کبھی امن عالم کا سکون برباد کرنے کا سوچا۔ جبکہ ایران بھی جدید دنیا کی تاریخ میں دفاعی پوزیشن پہ پی رہا۔ جبکہ اس کے مقابل اسرائیل بے رحمی اور جارحیت کی تمام حدیں پھلانگ کر بھی امن عالم کا خواہاں اور امریکہ کہ جو طاقت کا مآخذ بننے کے بعد انسانیت کے لیے درد سر بنا رہا۔ کم و بیش 22 سے زائد ممالک پر براہ راست حملے اور بالخصوص جاپان ایٹمی اور پھر عراق، افغانستان و ویٹ نام میں لاکھوں کا قتل عام کر کے بھی اپنی امن پسندی پر مہر تصدیق ثبت کروا رہا ہے۔ مگر یہ سب بھی تہذیب یافتہ اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کی نظروں سے اوجھل، ہاں انہیں خطرہ ہے تو پاکستان سے یا ایران کے پرامن جوہری پروگرام سے۔ یہ انکا مسلم دنیا سے خبث باطن ہے یا طاقت کا زعم جو انہیں حقائق پر پردہ ڈالے رکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ اب تو اقوام متحدہ بھی اسرائیلی مفادات اور توسیع پسندانہ عزائم کی سہولت کار کہ جس کی ذمہ داری اب صرف ایسی ریاستوں کی مکمل تباہی کے بعد انکی شکست پر مہر تصدیق ثبت کرنا اور جارح کے عمل کو جائز قرار دینا پی رہ گئی۔ کہ ظلم، بربریت اور قبضے روکنا تو اب اس کے بس میں رہا نہ ترجیحات میں۔ مگر مسلم ممالک کی اکثریت کی مجرمانہ خامشی ہمیں کاٹ کھاتی ہے۔ اس کا علاج کیا۔ ؟ گرچہ پاکستان کا جرات مندانہ اور ٹھوس موقف نہ صرف ایران کے لیے ڈھارس بنا بلکہ اس نے
مسلم دنیا کو پاوں پہ کھڑا ہونے کا پیغام دیا جبکہ سعودی عرب جیسے اہم ملک کے لیے اشارہ بھی کہ تجارت کے نام پر ہی سہی، اسرائیل و بھارت نوازیاں مستقبل میں انکے لیے تباہی کا سامان ہی لائیں گی۔ ایران اسرائیل جنگ میں را اور بھارت کا کردار ایران، سعودی عرب اور پورے عالم اسلام کی آنکھیں کھولنے کو کافی۔ ادھر چینی صدر کا بیان بھی امریکہ پر یقینا بجلی مگر اس میں امت مسلمہ کو بھی کچھ حصہ ڈالنا چاہیے۔ چینی صدر کے واضح مگر ملفوف سفارتی انداز میں امریکہ کو حد میں رہنے کا پیغام مظلوم ممالک کے لیے امید کی کرن کہ بڑی طاقت کا کام آگ لگانا نہیں بجھانا ہوتا ہے اور یہ کہ کسی ریاست کی خواہش پر دنیا میں ناحق کشت و خون کا بازار گرم نہیں کیا جا سکتا۔ بدقسمتی یہ کہ اب تک عالم اسلام یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ امریکہ، فرانس، جرمنی، برطانیہ بھارت اور پورا عالم کفر اسرائیل کے ساتھ، باطل کے تمام چہرے اپنے اختلافات فراموش کر کے ایک صف میں کھڑے ہیں۔ یزیدی سوچ، یہودی سازشیں، عیسائی منافرت اور ہندو منافقت سب یک دل و یکجاں۔ انسانی حقوق کے علمبردار ہوں یا جانوروں کے تحفظ کے پرچارک اہل مغرب، سبھی مسلمانوں کا خون بہانے میں نڈر اور بے باک۔ مگر اس کے باوجود مسلم دنیا کے اندر اپنے آپ کو محفوظ دفاعی بلاک میں پرونے کی کوئی خواہش نظر آتی ہے نہ کوشش اور نہ ارادہ۔ ابھی تو ایران تنہا ہی دجالوں کے لشکر سے نبرد آزما۔ ان حالات میں یہ حقیقت بھی سمجھنا ہو گی کہ گرچہ ایرانی غیرت و حمیت کے پاسباں اور اسرائیل کے لیے ان کی نفرت ضرب المثل،
بقول اقبال
تا کجا بے غیرت دیں زیستن،
اے مسلماں مردن است ایں زیستن۔
(تو کب تک دین کی غیرت کے بغیر زندگی گزارے گا، اے مسلمان یہ زندگی نہیں موت ہے)۔
یقینا عالم اسلام دین کی غیرت کے بغیر زندگی گزار رہا ہے اسی لیے اس پہ سکوت مرگ طاری اور موت کے خوف نے انہیں درندوں کے سامنے سرنگوں کر رکھا ہے۔ مگر حقائق کی دنیا کی بات ہی کرنی چاہیے کہ دنیا بھر کی مذمتی قرادادیں ایران کی مددگار ثابت ہو رہی ہیں اور نہ بے گناہوں کا قتل عام رک رہا ہے۔ غزہ پر مذمتوں اور قرادادوں کا حشر ساری دنیا دیکھ چکی۔ اب تو امریکہ سمیت جی سیون ممالک کھلم کھلا جارح کے ساتھ کھڑے اور مسلم ممالک جرات مندانہ اظہار سے بھی قاصر۔ مشرق وسطی کے بیشتر سے زائد ممالک اسرائیل سے اس حد تک خائف کہ اس کے خلاف بات تک بھی نہیں کر سکتے اور کچھ بڑے مسلم ممالک اپنے دفاع کی ذمہ داری امریکہ کو سونپ کر بے فکر ہو بیٹھے ہیں۔ ان حالات میں جذباتی نعروں دعوں کے ذریعے جلتی پر تیل ڈالنے کی بجائے ایران کی بقا، سلامتی، رجیم چینج اور خطہ کو عدم استحکام سے بچانے کے لیےجنگ بندی کی مربوط اور منظم کوششیں کرنی چاہیے کہ میدان جنگ میں اسرائیل اور سپر طاقتوں کے سامنے سینہ سپر اکیلے ایران کی مزاحمت اگر دم توڑ گئی تو پورا عالم اسلام اسرائیل کی ٹھوکروں پر ہوگا۔ سعودی عرب، امارات، پاکستان، چین اور روس کا کردار اس ضمن میں اہم کہ کم از کم مسلم دنیا اب ایک کے بعد ایک ریاست کی قربانی کی مزید متحمل نہیں ہو سکتی۔ ایران کے بہی خواہوں کو جنگ سے ایران کی باوقار واپسی کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ مسلم ممالک کی طرف سے اور کچھ نہیں تو فی الوقت ایرانی عوام کے لیے یہی بہترین تحفہ ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں