143

اگر اعتبار ہوتا

محمد اعظم احساس(ڈھوک کالیاں ){jcomments on}
ڈویژنل سپر ٹینڈنٹ پاکستان ریلوے راولپنڈی ڈویژن سی منور حسین شاہ کا یہ بیان نظر سے گزرا’’ ریلوے جلد اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگی‘‘بیان پڑھ کر حیرانی بھی ہوئی اور خوشی بھی ۔حیرانی اس بات پر ہوئی کہ ریل کے تو

پاؤں ہی نہیں ہوتے پھر منور صاحب کو یہ زعم کیوں ہے کہ وہ اس کو پاؤں پر کھڑاکریں گے میرے خیال میں اگر فالج زدہ کسی مریض کو کسی حد تک دوبارہ صحت مند حالت میں لانا ہو تو اس کے علاج کیلئے کئی ماہ درکار ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ خاصی محنت بھی کرنا پڑتی ہے مگر منور صاحب شائد فارن کو الیفائڈریل ڈاکٹر ہیں او ر پاکستان کی فالج زدہ ریلوے کو اس کی کھوئی ہوئی جوانی واپس کرنے کیلئے کوشاں ہیں
ایک وقت تھا جب پاکستان کے تمام شہروں میں ریل گاڑیاں باقاعدگی سے آتیں جاتیں تھیں آج سے کوئی 35 برس پہلے کی بات ہے میں پشاور کینٹ میں سروس کے سلسلے میں تھا وہاں سے رات 10 بجے خیبرمیل کراچی کے لئے روزانہ ہوتی تھی ہمارا کوئی ساتھی جب چھٹی جارہا ہوتاتھا ہم صرف اور صرف ریلوے سٹیشن پشاور کی رونق سے محظوظ ہونے کے لیے کوئی درجن بھر دوست اور ساتھی کوئی دو کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کرکے اسے see offکرنے کیلئے اس کے ساتھ جاتے تھے اور جب تک مذکورہ گاڑی پلیٹ فارم نہ چھوڑتی اسے خداحافظ کہنے کیلئے ہاتھ ہلاتے رہتے ۔ see offہونے والا ساتھی اس زعم میں رہتا کہ اس کے دوست ایک گروپ کی صورت میں اُسے پروٹوکول دے رہے ہیں جبکہ ہم تو صرف ریلوے سٹیشن میں مرد وزن کے ایک جم غفیرکی بھیڑاور اسٹیشن پر کھڑی گاڑیوں سے لطف اندوز ہونے کیلئے ایسا کرتے تھے
خود مجھے بھی ریل گاڑی کا سفر کرنے کے متعددمواقع میسر آئے یقین جانیئے جو مزہ ریل گاڑی میں سفرکرنے کا آتا ہے وہ ہوائی جہاز میں کہاں راولپنڈی سے کوئٹہ اور کراچی بہت مرتبہ بذریعہ ریل گاڑی جاناہوا اگر چہ یہ سفر 30 گھنٹے سے کم نہیں ہوتا تھا مگر کبھی تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی راستے بھر طرح طرح کے مسافروں کاساتھ رہتا گپ شپ بھی ہوتی اور چائے وغیرہ کا دور بھی چلتا ایک دوسرے کے ساتھ اُنس ہوجاتا اور رہائشی پتے بھی ایکس چینج کرتے اس وقت ریل اتنے عروج پر تھی کہ مسعود رانا کی آوازیں ایک فلمی گانا’’اوتھکدی نیءں گڈیے تو آنی ایں ایں تے جانی ایں کئیاں نوں وچھوڑنی ایں کئیانوں ملیناای ایں‘‘ سدھیر لالہ مرحوم پر پکچرائز کرتے ہوئے ایک تیز رفتار ریل گاڑی کا سین بھی فلمایا گیا تھا
پھر نہ جانے کیا ہوا۔ جی کیا کہا۔ \”کرپشن\” ہاں شائد یہی کچھ ہوا جو آپ کہہ رہے ہیں کہ ریل گاڑی آہستہ آہستہ پہلے لنگڑا کر چلی اور پھر باقاعدہ لولی ہو کر بیٹھ گئی ریل کی پٹڑیاں اور ریلوے اسٹیشن ویران ہو گئے اور لوگ بیچارے اس سستی اور آرام دہ سفری سہولت سے محروم ہوگئے میراگھر مانکیالہ ریلوے اسٹیشن سے کوئی پانچ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ غالبادس سال پہلے رات گئے گزرنے والی ریل گاڑی کی چھک چھک کی آواز سن لیاکر تاتھا مگر اب حالت یہ ہے کہ میں اپنے تین سالہ نواسے عبداﷲ کو ریل گاڑی گزرتے ہوئے دکھانا چاھتا ہوں اس کا گھر جھمٹ مغل میں ہے او ر اس کے گھر سے بمشکل ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ریل کی پٹڑی ہے جو لاہور کراچی جاتی ہے لیکن اب ہر پٹڑی کی طرف لے جاتا ہوں گھنٹوں وہاں اس انتظار میں بیٹھا رھتا ہوں کہ شاہد کبھی کوئی ریل گاڑی گزرے تو اسے دکھاؤں مگر کیا کروں کہ غالب کے مطابق کوئی اُمید بھر نہیں آتی کیونکہ شائد ریلوے والوں کو اس ہیروئن کی بد دعا لگ گئی ہے جس پر یہ گانا پکچرائزہوا تھا ’’نی ٹٹ جائیں ریل گڈیے توں روک لیا چن میرا۔‘‘
وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کے ہوتے ہوئے اس بات کی پکی اُمید رکھنی چاہیئے کہ وہ اس کُٹنی(کرپشن) کا سد باب کریں گے اور پھر سے اس ملک کے جنگل‘دریا‘پہاڑ گاؤں اور شہر ریل گاڑی کی آواز اور سیٹی سے گونج اُٹھیں گے لیکن کیا کروں کہ غالب کا یہ شعر باربار ذہین کے کسی گوشے سے کانوں میں گونج جاتا ہے کہ
تیرے وعدے پر جیئے تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

 

اعظم احساس فون نمبر03015095396

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں