27

اکھنڈ بھارت اور گریٹر اسرائیل

کسی قوم فرد یا معاشرے کی بقاء اور سالمیت کیلئے امن کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ متشدد معاشرہ یا افراد ایک خوبصورت زندگی کی تشکیل کبھی نہیں کر سکتے ایسے معاشرے یا افراد نہ صرف اپنے لئے زندگی اجیرن کر لیتے ہیں بلکہ دوسروں کی زندگی کو بھی جہنم بنا دیتے ہیں ۔

حضرت ابراہیم ؑ نے جب خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی تو انہوں نے اللہ رب العزت سے دعا کی کہ  اے اللہ پاک اس شہر کو امن والا بنا دے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم ؑ کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ بھی  صبر و تحمل کے ایک عظیم الشان پیکر تھے اور والد محترم کے ایک حکم کے سامنے قربان ہونے کیلئے تیار ہو گئے۔

حضرت اسماعیل ؑ  کی نسل سے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ؐ پیدا ہوئے جو صدیق اور امین کے لقب سے مشہور ہوئے ۔ امت مسلمہ ازل سے ہی امن کی داعی رہی اور ہمیشہ رہے گی ۔قرون اولیٰ کو چھوڑئے آج کی دنیا کے خدوخال کا جائزہی لیں تو یہ جان کہ دل رنجیدہ آنکھیں پر نم اور آہ و فغاں کا سماں ملتا ہے آج یہ امت بھیڑیوں نے ہر طرف سے گھیری ہوئی ہے اور وہ اسے نوچ نوچ کے کھا رہے ہیں۔اللہ رب العزت نے سورہ مائدہ کی آیت نمبر  82 میں فرمایا ہے کہ! تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے۔

مضمون نگار پیشہ کے لحاظ سے وکیل ہیں اپ قومی و بین الاقوامی ایشو کے ساتھ ساتھ معاشرتی مسائل پر لکھتے ہیں

اگر یہود کی مسلم دشمنی کی طرف نگاہ دوڑائیں تو یقین جانئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ آج فلسطین کے اندر یہودیوں نے ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ دئے ہیں اور اس پہ وہ بالکل بھی نادم نہیں ہیں ۔ اگر یہودیت کےمذہبی عقائد کو دیکھا جائے تو وہ یہ خواب سجائے بیٹھے ہیں کہ دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک کا علاقہ یہودیت کی میراث ہے اپنے اس بیانئے کا  وہ  علی الا علان پرچار اسرائیل کے پرچم میں کندہ دو نیلی لکیروں  سے اظہار کرتے ہیں ۔

یاد رہے کہ نیلا رنگ پانی کو ظاہر کرتا ہے۔ اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اُن میں دریائے نیل تک مصر ، پورا اُردن ، پورا شام ، پورا لبنان ، عراق کا بڑا حصّہ ، ترکی کا جنوبی علاقہ ، اور مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے ۔بقول ان کے مذہبی پیشواوں کے ان کی مقدس کتابوں میں مذکور ہے کہ  اِس وجہ سے اُس دِن خداوند نے ایک وعدہ کر کے اَبرام سے ایک معاہدہ کر لیا۔ اور خداوند نے اُس سے کہا کہ میں تیری نسل کو یہ ملک دوں گا۔ میں اُن کو دریائے مصر سے دریائے فرات تک کے علاقے کو دوں گا۔                                                                                                                                                                  

ایک طرف تو اسرائیل میں متشدد یہودی گریٹر اسرائیل کا خواب دیکھ رہے ہیں تو دوسری طرف ہندو توا کے پرچار کرنے والے انڈیا میں موجود نئی پارلیمنٹ کے اندر ایک تصویر سجائے اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھ رہے ہیں یاد رہے کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ کے اندر بھی گریٹر اسرائیل کا نقشہ یہودیوں نے سجایا ہوا ہے اور انڈیا کی نئی پارلیمنٹ بھی اسی طرح کے ایک نئے ذہنی فطور میں مبتلا ہے۔

اکھنڈ بھارت میں ہمارا شریر ہمسایہ ایک دیوانے کا خواب ذہن کے دریچوں میں سجاے ہوئے ہے انڈین پارلیمنٹ کی عمارت میں دیوار پر لگا نقشہ جس میں پاکستان، بنگلہ دیش سری لنکا اور نیپال کو انڈیا میں ضم کر کے دکھایا گیا ہے۔ اسی طرح انڈیا کو مغرب میں افغانستان ، ،مالدیپ اور بھوٹان سمیت قریبی ممالک میں پھیلا دکھایا گیا ہے۔ایک طرف گریٹر اسرائیل تو دوسری طرف گریٹر انڈیا۔

نریندر مودی جسے گجرات کا قصاب بھی کہا جاتا ہے اس کی قیادت میں 9.7 ارب انڈین روپوں کی لاگت سے تیار کی گئی اس عمارت میں ان لوگوں کے لئے ایک سوالیہ نشان موجود ہے جن کا دعوٰی ہے کہ اب ہمیں امن کی آشا کوفروغ دینا ہو گا ہمیں پڑوسیوں کے ساتھ امن و آشتی کے ساتھ رہنا ہو گا اسی میں ہماری بقا ہے۔

ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ جب اسرائیل کے وزیراعظم نفتالی بینینٹ یہ کہتا ہے کہ ہم انڈیا سے پیار کرتے ہیں اور انڈیا ہمارا سب سے بڑا دوست ہے ۔ آپ یہودو مشرکین کا گٹھ جوڑ دیکھئے اسرائیل حماس جنگ میں اسرائیل نے پناہ گزین کیمپس کے اوپر جو بمباری کی ان میں جو بم استعمال ہوئے ان پہ میڈ ان انڈیا کی تحریر لکھی پائی گئی۔

یہ رپورٹ الجزیرہ انگلش میں ایک صحافی  فیڈریکا مارسی کے نام سے  شائع ہوئی۔اس رپورٹ کے مطابق ایک جہاز Marianne Danicaانڈیا کی بندرگاہ سے 27 ٹن دھماکہ خیز مواد لے کے اسرائیل کی طرف گامزن ہوا جب کہ ایک اور جہاز  جس کا مبینہ نام Borkum  بتایا گیا انٖڈیا سے اسرائیل کی طرف 20 ٹن راکٹ انجن، 12.5 ٹن بارودی راکٹ 1500 کلو آتش گیر مواد اور مختلف اقسام کے بارودی مواد لے کر اسرائیل کی طرف گامزن ہوا اور یہ رپورٹ جون 2024 کو شائع کی گئی۔

اب ذرا اندازہ کیجئے کہ  ہندو بنیے نے ایک فالس فلیگ  پہلگام حملہ کو جواز بنا کر پاکستان میں جو ڈرون بھیجے وہ بھی میڈ ان اسرائیل تھے۔ ان ڈرون کا نام ہاروپاور ہیرون مارک 2تھا۔پاکستان نے تقریباً اسی کے قریب اسرائیلی ساختہ ڈرون گرائے جو انڈیا نے پاکستان میں بھیجے۔

گجرات کا قصاب بنیا نریندر مودی وہ پہلا ہندوستانی وزیراعظم ہے جس نے اسرائیل کا باضابطہ دورہ کیا انڈیا کے روابط اسرائیل سے پہلے بھی تھے لیکن 1992 میں یہ مزید مضبوط ہونا شروع ہو گئے۔ اس سے پہلے ہندو بنئے پہ عرب ممالک کا ایک پریشر تھا کہ ہندوستانیوں کی ایک کثیر تعداد عرب ممالک میں نوکریوں سے وابستہ تھی  لیکن رفتہ رفتہ یہ ڈر ختم ہونا شروع ہو گیا ۔ 

گذشتہ دنوں جب انڈیا نے پاکستان پہ حملہ کیا تو اسرائیل وہ واحد ملک تھا جس نے کھل کر انڈیا کی حمایت کی۔ اندازہ لگائیں کہ  پہلگام میں 22 اپریل کو ہونے والے فالس فلیگ حملے کے دو دن بعد نیتن یاہو فون کر کے گجرات کے قصاب کو  فون کر کے کہتا ہے  کہ مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنے چاہی۔

بعض مبصرین کہ مطابق انڈیا کا پاکستان پہ حملہ بین الاقوامی برادری کی توجہ فلسطین سے ہٹانے کیلئے کیا گیا اور یہ اسرائیل اور انڈیا کی مشترکہ منصوبہ بندی تھی۔ کیونکہ انٹرنیشنل لیول پہ اسرائیل کی سفاکیت اور بربریت کے خلاف آوازیں شدت اختیار کر چکی تھیں ۔ اور اسرائیل کے اندر سے بھی نیتن یاہو کے خلاف شدید قسم کا ردعمل ظاہر کیا جا رہا تھا۔ اور اسرائیل کی منصوبہ بندی میں یہ چیز شامل تھی کہ جب دو نیوکلئیر ریاستیں آپس میں ٹکرائیں گی تو دنیا ادہر متوجہ ہو جائے گی اور اسرائیل پہلے سے زیادہ شدو دمد کے ساتھ غزہ کے معصوم بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں ، پناہ گزین کیمپوں اور ہسپتالوں پہ بمباری کر کے اپنے ناجائز ریاست کی راہیں ہموار کر لے گا۔

لیکن مشیت ایزدی میں شاید کچھ اور ہی لکھا تھا۔ انڈیا کا یہ حملہ پاکستان کی بہادر افواج نے تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ یاد رکھے جانا والا آپریشن بنیان المر صوص  کر کے دشمن کے چھکے چھڑا دئے اور ایک عظیم فتح حاصل کی جو انڈیا کی نسلیں تک یاد رکھیں گی۔

آج 26 سے 36 ہزار ہندوستانی اسرائیل میں جاری جنگ کے باوجود اسرائیل میں موجود ہیں۔ مالی سال 2022 سے 23 میں انڈیااور اسرائیل کی تجارت کا حجم 8.45 ارب امریکی ڈالر تھا۔ اسی طرح 2023 اور 24 میں تجارت کا یہ حجم 63.53 ارب امریکی ڈالر رہا جس میں دفاعی سازوسامان شامل نہیں ہے۔

اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے کہا تھا کہ عالمی صیہونی تنظیم کو پاکستان جیسے خطرناک ملک کو کسی صورت بھولنا نہیں چاہے ۔پاکستان یہودیوں کا پہلا نشانہ ہونا چاہے کیونکہ یہ یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں اور عربوں سے محبت۔اور ہندوستان میں رہنےوالے لوگوں کے دلوں میں پاکستانیوں کے لئے شدید نفرت بھری ہے لہذا ہمیں اس سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہے اور پاکستان جیسے ملک کو ختم کرنے کیلئےہندوستان کو بیس یعنی بنیاد بنانا چاہے(جیوش کرونیکل 1967)

قارئین یہودو مشرکین کی اسلام دشمنی اور موجودہ دور میں پاکستان دشمنی پہ صفحات بھرے جا سکتے ہیں ۔ اس وقت پاکستان ایک واحد نیوکلیئرپاور ہے جو مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے اور اس کی افوج کا دنیائے عالم میں ڈنکا بجتا ہے۔ آج دشمنان اسلام و دشمنان پاکستان بالخصوص پاکستان پہ بری نظریں جمائیں ہوئے ہیں ۔

اسکی واضح جھلک پہلگا م کا ڈرامہ رچا کہ پاکستان پہ حملہ کرنا تھا اور جب تک دشمن کو ہم نے جواب نہیں دیا اور دشمن ہم پہ حملہ کرتا رہا تو جناب ڈونلڈٹرمپ صاحب اور ہم نوا فرماتے رہے کہ ہم اس معاملہ میں مداخلت نہیں کریں گے یہ دونوں ممالک کا اندرونی مسئلہ ہے۔ لیکن جو نہی پاکستان نے کاری ضرب لگائی تو انہیں ہوش آیا کہ جنگ بندی کی  اشدضرورت ہے۔

ازل سے ہی مسلمان عددی لحاظ سے اور جنگی سازو سامان کے لحاظ سے غیر مسلموں کے مقابلے میں کمتر رہے ۔ لیکن بارہا ایسا ہوا کہ اللہ کے حکم سے ایک قلیل تعداد کثیرتعداد پہ بھاری رہی کیونکہ جب بات مادر وطن کے دفاع پہ آتی ہو تو بچہ ، بوڑھا اور جوان ایک ہی صف میں کھڑے ملتے ہیں۔ اور چاہے مشرک ہوں یا یہودی ان کے خلاف صف آرا و کمر بستہ رہتے ہیں۔

بقول علامہ اقبال

اللہ کو پامردي مومن پہ بھروسا

ابليس کو يورپ کي مشينوں کا سہارا

پاکستان زندہ باد

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں