اڈیالہ روڈ‘ راولپنڈی کی ایک ایسی شاہراہ ہے جسے عمومی طور پر ایک درمیانی درجے کی رابطہ سڑک سمجھا جاتا ہے، مگر جغرافیائی اور سیاسی اہمیت کے اعتبار سے اس کی حیثیت کسی مرکزی شاہراہ سے کم نہیں۔ یہ سڑک نہ صرف راولپنڈی کے وسطی علاقوں کو دیہی پٹیوں سے جوڑتی ہے بلکہ اسلام آباد، روات اور چکری انٹرچینج کے ساتھ براہ راست ربط قائم کرتی ہے۔ تقریباً چونتیس سے پینتیس کلومیٹر پر محیط اس سڑک پر واقع ذیلی راستے ایسے ہیں
جو کسی بھی اجتماع یا احتجاجی سرگرمی کے لیے بہترین معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ گورکھپور کا ذیلی راستہ اڈیالہ روڈ کو براہ راست روات سے جا منسلک کرتا ہے تو چکری انٹرچینج تک بھی اڈیالہ روڈ سے آپ پشاور روڈ یا موٹروے چوک سے بہت جلدی پہنچ جاتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی قوت اس سڑک پر عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہے
، تو زمین‘ مقام اور رسائی سب کچھ اُس کے موافق ہیں اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ اڈیالہ روڈ پر چاروں طرف سے لنکس ایسے جڑے ہوئے ہیں کہ کہیں سے بھی اڈیالہ روڈ پہنچنا مشکل نہیں ہے۔جب 8 مارچ 2025 کو بانی تحریک انصاف سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کا معاملہ سامنے آیا اور اُن کے خاندان نے ملاقات نہ کروانے کی صورت میں دھرنے کا اعلان کیا، تو تمام تر سیاسی توجہ اس مقام پر مرکوز ہو گئی۔ اس موقع پر عمران خان کی تینوں بہنیں جیل کے باہر موجود تھیں،
اور انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ اگر ان کی ملاقات نہ کروائی گئی تو وہ وہیں دھرنا دیں گی۔ تاہم جو چیز سب سے زیادہ چونکا دینے والی تھی، وہ یہ تھی کہ اس دھرنے میں شرکت کرنے والوں کی تعداد محض چند درجن افراد پر مشتمل رہی۔ جس اڈیالہ روڈ پر معمولی سے بلدیاتی امیدوار کی کارنر میٹنگ میں سینکڑوں افراد کی شرکت معمول کی بات ہو،
وہاں ایک قومی سطح کے لیڈر کے اہل خانہ کی موجودگی بھی عوامی ہجوم اکٹھا کرنے میں ناکام رہی۔ یہ ایک علامتی لمحہ تھا، ایک سیاسی جماعت کے عوامی بیانیے کی حقیقت کا پردہ چاک کرتا ہوا لمحہ۔ پورے اڈیالہ روڈ پر پی ٹی آئی کے علاقائی راہنما ہی اتنے تگڑے ہیں کہ وہ چاہتے تو ہزاروں افراد اکھٹے کر سکتے تھے۔
اڈیالہ روڈ کی سماجی اور سیاسی اہمیت کو اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو یہاں کم از کم تین مکمل یونین کونسلز اور ایک جزوی یونین کونسل واقع ہے۔ ان علاقوں میں برادریوں کا راج ہے، اور یہی برادریاں انتخابی کامیابی و ناکامی کا فیصلہ کرتی ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں عام بلدیاتی انتخابات میں ہزاروں افراد پر مشتمل قافلے نکلتے ہیں،
بینرز لگتے ہیں، نعرے گونجتے ہیں، اور ہر چوراہا سیاسی گہما گہمی کا مرکز بن جاتا ہے۔ مگر اسی پٹی پر اگر ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے قائد کے لیے عوامی موجودگی ناپید ہو جائے تو یہ صرف وقتی خاموشی نہیں بلکہ کسی گہرے زوال کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔یہ واقعہ اس وقت مزید حیران کن ہو گیا جب جیل کے گیٹ پر موجود مظاہرین میں سے بعض کو گرفتار کر کے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک شادی ہال کے قریب چھوڑ دیا گیا۔
یہ اقدام بظاہر تناؤ کم کرنے کے لیے کیا گیا، مگر اس کے بعد جو دھرنا وہاں دیا گیا، وہ رات گئے خود ہی تحلیل ہو گیا۔ نہ کوئی مرکزی قیادت نظر آئی، نہ کوئی منظم نعرہ بازی اور نہ ہی کوئی حکمتِ عملی۔
ایسے میں یہ سوال اُٹھنا ناگزیر تھا کہ اگر عمران خان جیسے کرشماتی شخصیت کے لیے بھی عوامی طاقت منظم نہ کی جا سکے تو پھر تنظیم، قیادت، اور پارٹی ڈھانچے کی افادیت پر سوالیہ نشان کیوں نہ اٹھیں؟ ایک قومی سطح کا لیڈر ہے۔ اس کا خاندان سڑکوں پر رُل رہا ہے اور تمام کی تمام قیادت سرے سے غائب ہے۔
بیرسٹر گوہر الگ ڈھوک بسائے بیٹھے ہیں اور سلمان اکرم راجا صاحب کی تقاریر بھی کہیں گم ہو رہی ہیں۔ ہاں ایک بات ضرور دیکھی کہ سوشل میڈیا پر راہنماؤں کے بیانات بہت آنا شروع ہو گئے کہ ہم بھی اڈیالہ جیل جا رہے ہیں اور فلاں فلاں۔
مقامی قیادت کی بات کی جائے تو کرنل (ر) اجمل صابر راجہ اور چوہدری نذیر جیسے افراد یقیناً اپنی استطاعت کے مطابق متحرک ہوں گے، لیکن اگر ان کی کوششوں کے نتیجے میں صرف چند درجن افراد ہی سڑک پر نظر آئیں تو پھر نہ صرف ان کی سیاسی حیثیت پر سوال اٹھتا ہے
بلکہ پورے تنظیمی نیٹ ورک کی فعالیت بھی مشکوک ہو جاتی ہے۔ اجمل صابر نے عام انخابات میں چوہدری نثار جیسی قد آور سیاسی شخصیت اور قمر السلام راجہ جیسے ن لیگی امیدوار کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔ مزید یہ کہ صرف یہاں موضوع بحث راولپنڈی کی قیادت کو ہی رکھیں تو ہر دوسرے دن ایک نوٹیفیکیشن مقامی قیادت کی تعیناتی کا سامنے آتا ہے۔
اور راولپنڈی کی سطح تک کے پارٹی عہدیدار ہی آ جاتے تو ایک ہجوم بن سکتا تھا۔ اگر کسی بھی صورت میں غیر مقامی قیادت کو بری الذمہ قرار دیا جائے، تو چار یونین کونسلز کی مقامی قیادت کی کارکردگی کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ وہ یونین کونسلز جہاں بلدیاتی سطح پر ووٹرز کو منظم کیا جا سکتا ہے،
جہاں ہر گاؤں میں تحریک انصاف کا ایک فعال حلقہ موجود تھا، آج وہاں سے ایک اجتماعی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔اس پوری صورتحال کا جائزہ لیں تو تحریک انصاف کے لیے یہ لمحہ خود احتسابی کا ہونا چاہیے۔ وہ جماعت جو کبھی نوجوانوں کے جوش و جذبے، سوشل میڈیا کی مہمات، اور بڑی ریلیوں کے حوالے سے پہچانی جاتی تھی، اب وہی جماعت عملی میدان میں کمزور اور غیر منظم دکھائی دیتی ہے۔
سوشل میڈیا پر موجود طاقت جب زمین پر نظر نہ آئے تو یہ ایک مصنوعی برتری ثابت ہوتی ہے۔ وہ کارکن جو ماضی میں ایک کال پر گھروں سے نکلتے تھے، اب یا تو مایوس ہو چکے ہیں یا پھر مقامی قیادت کی سرد مہری اور غیر فعالیت کی وجہ سے کنارہ کش ہو چکے ہیں۔
اور اگر یہی روش جاری رہی تو تحریک انصاف خود کو ایک“آن لائن جماعت”میں تبدیل ہوتا دیکھے گی — ایک ایسی جماعت جو صرف ٹرینڈز بناتی ہے مگر زمین پر قدم رکھنے کے قابل نہیں رہتی۔فیصل واوڈا کی بات کہ ”تحریک انصاف میں سوائے عمران خان کے سب مزے میں ہیں ”
اب صرف ایک الزام نہیں، بلکہ ایک تلخ حقیقت کی صورت میں سامنے آ چکی ہے۔ عمران خان خود قید میں ہیں، عدالتی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، ان کی اہلیہ تک بھی جیل میں ہیں، مگر دوسری طرف پارٹی کے منتخب نمائندے، مرکزی قیادت، مقامی قیادت، اور پرانے رفقاء خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
یہ رویہ صرف غیر ذمہ دارانہ نہیں بلکہ جماعت کے وجود کے لیے خطرناک ہے۔ اگر کارکن اور ووٹرز یہ محسوس کرنے لگیں کہ ان کی آواز صرف اس وقت سنی جاتی ہے جب انتخابات قریب ہوں، تو پھر وہ کب تک وفادار رہیں گے؟یہ وقت ہے کہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت محض بیانیے کے زعم سے باہر نکلے اور زمینی سیاست کی تلخ حقیقتوں کو تسلیم کرے۔
کارکنوں کو دوبارہ منظم کرنے، مقامی سطح پر روابط کو بحال کرنے، اور قیادت کو جوابدہ بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ ہر وہ مقامی رہنما جو قومی و صوبائی حلقوں اور اپنی یونین کونسل سے چند سو افراد اکٹھے کرنے کی صلاحیت بھی کھو چکا ہو، اُسے یا تو تبدیل کیا جائے یا اُس کی تربیت کی جائے۔ جماعتیں وہی زندہ رہتی ہیں جو وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالتی ہیں،
ورنہ تاریخ اُنہیں صفحہِ سیاست سے مٹا دیتی ہے۔اڈیالہ روڈ پر ہونے والا یہ واقعہ صرف ایک دھرنے کی ناکامی نہیں، یہ تحریک انصاف کے موجودہ تنظیمی ڈھانچے، اس کی مقامی قیادت کی نااہلی، اور عوامی رابطے کی شدید کمی کا ثبوت ہے۔ یہ بظاہر تو ایک راولپنڈی کی سطح کا معاملہ لگے گا لیکن یہ مزاج پارٹی کو پاکستان کی سطح پر بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہ ایک تنبیہ ہے کہ اگر وقت پر اصلاح نہ کی گئی تو وہ جماعت جو ایک وقت میں ملک بھر میں انقلاب کا نعرہ لے کر نکلی تھی، وہ بھی ماضی کے کئی نظریاتی گروہوں کی طرح صرف ایک یاد بن کر رہ جائے گی۔ عمران خان کی مقبولیت ایک حقیقت ہے،
مگر قیادت کی کامیابی صرف عوامی محبت سے نہیں بلکہ تنظیمی صلاحیت، مؤثر حکمتِ عملی اور عملی میدان میں موجودگی سے جڑی ہوتی ہے۔یہی وقت ہے کہ مرکزی قیادت اپنے اردگرد کے”خاموش نفع خوروں“ کو پہچانے، عوامی نمائندوں کو ان کی کارکردگی کے ترازو میں تولے، اور زمینی سیاست میں واپسی کی حقیقی کوشش کرے۔ بصورت دیگر آنے والے دنوں میں عوام صرف نعرے نہیں بدلیں گے، قیادت بھی بدل سکتے ہیں۔
اور اس وقت تک شاید واپسی کی گنجائش بھی نہ بچے۔اتنی تمہید بظاہر محسوس یہی ہو گی کہ ایک عام سے علاقائی مسئلے کی جانب نشاندہی کر رہی ہے۔ لیکن بغور جائزہ لیجیے تو جو جماعت اس وقت ایک عام سی ذیلی شاہراہ پر چند درجن افراد بھی باقاعدہ منظم انداز سے اکھٹے نہیں کر پا رہی وہ قومی سطح کے کسی بھی معاملے پر کیسے کوئی دعویٰ کر سکے
گی یا لوگوں کو راغب کر سکے گی۔ جس قدر راہنما ٹی وی چینلز پر، سوشل میڈیا پر اور پرنٹ میڈیا میں چھائے نظر آتے ہیں وہ اگر ایک دفعہ ہی سہی لیکن اڈیالہ جیل کے باہر اکھٹے ہو جائیں تو کہنا بنتا ہے کہ واقعی یہ ایک جماعت ہے۔ لیکن لیڈر کے خاندان کو ایک زیر تعمیر سڑک پر بے یارومددگار چھوڑ کا ناجانے پارٹی قیادت کس جہاں کے فسانے سنا رہی ہے۔