اپوزیشن کے جلسے اور حکومت کی ذمہ داریاں

ضیاء الرحمن ضیاء/ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے،اپوزیشن جماعتیں جلسوں پر جلسے کر رہی ہیں جو کہ اپوزیشن کرتی ہے، اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے جو تحریک شروع کی ہے وہ فی الحال تو کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور اس میں شامل تمام جماعتیں یک زبان ہو کر حکومت کے خلاف سرگرم ہیں اور عوامی طاقت کے ذریعے حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے پر عزم ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں اچھے خاصے بڑے جلسے کر رہی ہیں جن میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہو رہے ہیں۔ پہلا جلسہ گجرانوالہ میں کیا جس میں عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور اپوزیشن جماعتوں کے حوصلے بلند ہوئے، دوسرا جلسہ انہوں نے کراچی میں کیا وہاں بھی عوام کی اچھی خاصی تعداد نے جلسے میں شرکت کر کے اپنے رہنماؤں کی مزید حوصلہ افزائی کی۔ اب اپوزیشن جماعتیں مزید جلسے کرنے اور حکومت کے خلاف تحریک کو مزید تیز کرنے کے لیے پرجوش ہیں جو حکومت کے لیے مشکل کا باعث بن سکتا ہے۔اپوزیشن جماعتیں جلسوں میں کیا تقاریر کرتی ہیں یا میاں نواز شریف نے اداروں بالخصوص فو ج کے خلاف کیا زبان استعمال کی؟ فی الوقت تو اس گفتگو کو موقع نہیں ہے ابھی تو میں فوج کے ان جوانوں کے لیے غمزدہ ہوں جو چند روز قبل وزیرستان اور گوادر میں دہشتگردوں کی کاروائیوں میں جام شہادت نوش کر گئے اور یقینا ہر پاکستانی اپنے ان جوانوں کے لیے فکر مند ہے جو دہشتگردوں کے خلاف محاذ پر ہیں، اللہ رب العزت ان کی حفاظت فرمائے۔ یہاں اس گفتگو کو میں زیادہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن تو جلسے کر رہی ہے اور حکومت پر تنقید بھی کر رہی ہے جو کہ ہمیشہ ہوتا ہے لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ حکومت کیا کر رہی ہے؟ ہمارے وزراء کو کس کام میں لگا رکھا ہے وہ بس اپوزیشن کے جلسوں پر تبصرے کر رہے ہیں کوئی تو ان کے اعداد و شمار جاری کر رہا ہے اور کوئی اپوزیشن رہنماؤں کی تقاریر کا پرچار کر رہا ہے۔ اگر کوئی شخص اپوزیشن رہنماؤں کی تقاریر نہیں سن سکتا یا ان کی طوالت کی وجہ سے سننا پسند نہیں کرتا تو وہ وفاقی وزراء کے بیانات سن لے اپوزیشن رہنماؤں کی تمام تقاریر کا خلاصہ سمجھ میں آجائے گا۔ اپوزیشن رہنما جلسہ کر کے گھروں کو چلے جاتے ہیں اس کے بعد دو چار روز تک وزراء اس پر بیانات دیتے رہتے ہیں یہاں تک کہ دوسرا جلسہ آجاتا ہے اور وزراء کو نیا کام مل جاتا ہے وہ جلسوں کے بعد ان کے متعلق بیانات داغتے رہتے ہیں۔ حکومت کے لیے کرنے کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ اپوزیشن کے جلسوں میں جو لوگ شریک ہو رہے ہیں ان کے مسائل کیا ہیں؟ وہ ہماری جماعت کو چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں کیوں اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں؟ کیونکہ عوام کی کافی تعداد جلسوں میں موجود ہوتی ہے چاہے حکومت مانے یا نہ مانے۔ حکومت کی طرف سے جو تعداد بتائی جاتی ہے اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے اور اپوزیشن کی جانب سے جو تعداد بتائی جاتی ہے اصل تعداد اس سے کافی کم ہوتی ہے اس لیے اصل تعداد کو ان دونوں کے درمیان میں سمجھنا چاہیے۔ بہر حال ہزاروں لوگ اپوزیشن کے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں اور لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں کیونکہ لاتعداد افراد ایسے ہوتے ہیں جو جلسوں میں شرکت کرنے والوں کی طرح ستائے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کی طرح کے نظریات رکھتے ہیں لیکن کسی وجہ سے جلسوں میں شرکت نہیں کر سکتے یا نہیں کرنا چاہتے، اس لیے شرکت کرنے والے افراد ان کی بھی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر اپوزیشن کے حالیہ جلسوں میں عوام کی شرکت کی وجہ جاننے کی کوشش کی جائے اور وہاں موجود افراد کی اکثریت مہنگائی کا رونا روتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ ہم مہنگائی کے ستائے ہوئے ہیں اس لیے اس حکومت سے چھٹکارا چاہتے ہیں وزیراعظم صاحب اور وزراء تو انہیں اپوزیشن جماعتوں کے کارکن سمجھتے ہیں اور یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ انہیں لالچ دے کر یا بہکا کر یہاں لایا گیا ہے لیکن ان کی حالت زار دیکھیں تو وہ کچھ اور ہی بتاتی ہے۔ یہ تمام افراد جیالے نہیں ہوتے نہ ہی اپوزیشن جماعتیں انہیں نکلنے پر مجبور کرتی ہیں بلکہ حکومت خود ہی انہیں نکلنے پر مجبور کرتی ہے وہ اس طرح کہ حکومت کی غلط پالیسیاں جب ملک کے حالات خراب کرتی ہیں تو عوام تنگ ہو جاتے ہیں اور وہ حکومت کے خلاف نکلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان میں بہت سے افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں حکمران جماعت کو ہی ووٹ دیے لیکن اب وہ حکومت کی نااہلیوں کو دیکھ کر اپنے کیے پر شرمسار ہیں اور حکومت سے چھٹکارا پانے کے لے اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہاں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت بنی ہی اپوزیشن کی زبانی مخالفت کے لیے ہے بس ان کی حرکات پر نظر رکھو اور بیانات داغتے رہو اس کے سوا کوئی اور کام نہیں کرنا ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ اب تو سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور عوام کے حال پر رحم کھا کر کوئی ذرا سی کارکردگی تو دکھا دے۔ اپوزیشن کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑنے سے ان کی نااہلی نہیں چھپے گی بلکہ اپنے کام پر دھیان دیں اپنے اپنے محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنائیں، عوام کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں، مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مؤثر اقدامات کریں، بیروزگاری کے خاتمے کے لیے کام کریں، معیشت کو بہتر بنائیں، ان اقدامات سے آپ پرعوام کا اعتماد بڑھے گا اور وہ اپوزیشن کا ساتھ دینے کی بجائے حکومت کا ساتھ دیں گے اور خودبخود اپوزیشن کی تمام تحاریک ختم ہو جائیں گیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں