اپوزیشن جماعتوں کا حکومت پر مشترکہ وار

حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ وار کامیاب رہے گا یا نہیں‘ ملکی سیاست میں مارچ ایک بار پھر اہمیت اختیار کر گیا وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کے گٹھ جوڑ کو عوامی تائید حاصل ہے یا کہ امریکہ کی؟ آمریت کے دور میں بننے والی سیاسی جماعت مسلم لیگ ق چند علاقائی سیٹیں جیت کر ہر جمہوری و آمرانہ حکومت میں اقتدار میں شامل ہو جاتی ہے کیا انکی قیادت کے فیصلے ملکی مفاد کے لئے ہوتے ہیں یا کہ ذاتی مفادات کے حصول کے لئے؟ اس وقت ملکی سیاست و اسلام آباد میں بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کے سبب ملکی و عالمی میڈیا کی نظروں میں ہے غیر ملکی سفارت خانوں میں پاکستان کی بدلتی سیاسی صورت حال پر نظر رکھنے کے لئے سیکشن آفیسر و ڈیسک قائم کر دئیے گئے ہیں جو اپنی اپنی حکومتوں و فارن آفس کو اطلاعات پہنچا رہے ہیں، مان لیتے ہیں کہ موجودہ حکومت کا اقتدار اب چند دنوں کا مہمان ہے کیا پاکستان مسلم لیگ ن پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادتوں کے پاس نئے انتخابات کے بعد اقتدار کے حصول کے بعد یا ان ہاؤس تبدیلی کے بعد ملک میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے قیمتوں میں کمی کی کوئی ٹھوس حکمت عملی ہے کیا؟ کیا نئی حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی غرض سے گھی چینی آٹا دالوں و پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کر پائی گی؟ بجلی گیس کی قیمتوں کو کم کر پائے گی جس طرح سابق ادوارِ میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے IMF سمیت دیگر مالیاتی اداروں سے مشکل شرائط پر قرضے لئے ملکی اثاثوں کو بے مول گروہی رکھ کر اسی طرز پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے مالیاتی نظام کو چلانے و عالمی معاہدوں کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے مشکل شرائط پر لئے کیا آنے والی نئی حکومت ان سب مشکلات نکل پائے گی؟پاکستان میں عوام کی سیاسی بصیرت کے لحاظ سے متعدد درجوں میں بیٹھی ہوئی ہے کئی گلی نالی کی صورت میں جاری ترقیاتی منصوبوں تو کئی اشیاء ضروریہ کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کو حکومتی کارکردگی جانچنے کا طریقہ پیمانہ قرار دیا جاتا ہے تو کئی جیسے انکے وڈے سائیں کے احکامات وطن عزیز کے اندر میڈیا گروپس کی گروپ بندیوں و میڈیا مالکان کے سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں سے جوڑے ذاتی روابط و مالیاتی مفادات کے سبب اصل حقائق عوام تک نہیں پہنچ پاتے ایک حد تک عوام کو میڈیا کے ذریعے غلام گردشوں کے اندر جاری سازشوں کا دراک کروایا جاتا ہے عوام عالمی و ملکی معاملات کو مکمل نہ دیکھ پاتے ہیں اور نہ ہی اتنی علمی صلاحیتیں رکھتے ہیں وطن عزیز کی اہمیت ہر دور میں اہم رہی امریکہ نے دور بیٹھ کر افغانستان میں دو طویل جنگیں لڑیں جس کے اثرات ملکی معاشی سیاسی و عوامی سطح پر کس طرح مربع ہوئے طویل بحث ہے یہ مگر اسکا ادراک علمی حلقوں کو بخوبی ہے ماضی میں وزیراعظم لیاقت علی خان شہید کا دور روس رکوانے میں امریکی کردار کا تذکرہ ان ادوار میں اہم عہدوں پر تعینات امریکی بیوروکریٹ کی لکھی کتابوں میں پڑھنے کو اب ہمیں ملتا ہے کہ کس طرح پاکستان کو امریکہ کے زیر اثر رہنے و روس سے دور رکھنے کے لئے اسوقت کے پاکستانی سیاست دانوں و بیوروکریسی کو استعمال کیا گیا اور انعام میں انھیں گرین کارڈ دیئے گئے۔وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس کے بعد مرکزی و صوبائی دارلحکومت اسلام لاہور میں امریکی بیوروکریٹ کی جاری سرگرمیوں و حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کے متحرک ہونے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کس بھی طور پر پاکستانی سیاست میں روایتی حریف مسلم لیگ ن و پیپلز پارٹی کی قیادتوں کا ایک دوسرے پر کرپشن و گریٹر پنجاب بنانے کا سنگین الزام لگانے کے باوجود اگھٹے ہو جاتا بھی معنی خیز ہے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے شریک چیئرمین پی پی آصف علی زرداری نے گجرات کو ڈپٹی وزیر اعظم کا منصب بھی سونپ ڈالا تھا حالانکہ شہید بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی کو جن احباب سے خطرات لاحق ہونے کا اظہار کیا تھا اس فہرست میں چوہدری پرویز الٰہی کا نام شامل تھا وقت تیزی سے گزر رہا ہے کون قیامت کی چال چلتا ہے اور کس کی چال ناکام ہوتی ہے یہ سب سامنے آنے میں اب زیادہ دیر نہیں اسلام آباد کے دوست بیجنگ اور ماسکو اس سارے معاملے کو کس انداز سے دیکھ رہے ہیں یہ بھی دلچسپ امر ہے کیونکہ امریکہ اسلام آباد کو زیر اثر رکھنا چاہتا ہے اسلام آباد سے ماسکو کی پرواز دوبارہ دیکھنے کو ملے گی کیا اسلام آباد میں امریکہ کی بچھائی سیاسی شطرنج کی بساط پر فتح کس کے مقدر میں آتی ہے اسکا ادراک بھی سب کو ہونے والاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں