اپریل فول

پروفیسر محمد حسین
امت مسلمہ عموماً اور پاکستانی قوم خصوصًا جس تیزی سے اپنے دینی و اسلامی تشخص سے بیگانہ ہوتی جا رہی ہے۔ اور اپنی ثقافت و روایات سے دوری اختیار کر رہی ہے۔ اس سے اہل فکر و دانش کو سخت تشویش لا حق ہے۔ مغربی معاشرے سے مرغوب نقالی کا شوقین اور احساس کمتری میں مبتلا غیر ملکی تعلیم کا دلدادہ طبقہ قومی و اسلامی اخلاقی اقدار سے جان چھڑانے کو ہی ترقی کا زینہ سمجھا ہے

ان کے دین و مذہب سے بیزار مسیحی آقاؤں نے اپنے تجربہ کی روشنی میں انہیں ہی سکھایا ہے کہ دنیاوی ترقی کا راز ترک دین میں ہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف وطن عزیز کی مخالف قوتیں پاکستان کے وجود کی نفی کرنے اور اسے ایک ناکام ریاست ثابت کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں ان پڑھ اور بیروز گار لوگوں کی کثرت ہونے کی وجہ سے ہر قسم کے کام کے لیے ہر جگہ تماشا کی وافر مقدار میں مل جاتے ہیں

فحاشی و عریانی کو فنکاری کا نام دے کر فروغ دینے والا ایک مشکل طبقہ بھی ہمارے ہاں موجود ہے جو وقتا فوقتا غیر ملکی ثقافتی طائفوں کے ذریعے دو قومی نظریے کی جڑیں کاٹنے میں لگا رہتا ہے اور اس کے لیے کوئی موقع ضائع نہیں کرتا غالبا ان ہی بدترین حالات کی وجہ سے ملک و قوم گونا گوں مسائل کا شکار ہے خصوصا حالیہ خانہ جنگی کی کیفیت سیای عدم استحکام اور معاشی ابتری و مالی بدحالی اور موسم کی خشک سالی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے

اور غیر ملکی مالیاتی اداروں کے دباؤ پر مہنگائی کا عفریت بھی خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے اسی کے باوجود کسی سطح پر بھی اللہ کی طرف رجوع اور نیکی کا رجحان نہیں ہے یہ صورتحال نہایت افسوس ناک ہے اس کے بعد اب اپریل فول کی خوئے بد پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیگی جس کے بہانے لاکھوں جھوٹ بولے جائیں گے ہزاروں دھوکے ہوں گے اور ایک دن کے لیے ہماری قوم اپنے آپ کو بے

وقوف اور احمق تسلیم کر کے اپنی قومی و دینی شرافت و نجابت اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا جامہ شرم وحیا تار تار کرے گی اور اسلامی نقطہ نظر سے اس رسم بد کا نہ صرف کوئی جواز نہیں بلکہ قرآن و سنت کی رو سے اس کی حرمت واضح ہوتی ہے یہ غیر مسلم اقوام کی عادت و روایت ہے اور ایسے مسلمان جو غیر مسلموں کی مشابہت اور نقالی کرتے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں

انہیں جناب رسالت مآبؐ نے انہی میں سے دیا ہے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسولؐ نے ارشاد فرمایا کہ میں قیامت سے پہلے تلوار دے کر بھیجا گیا ہوں تاکہ ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اور بلا کسی شر یک کے میرا رزق میرے نیزے کے سائے تلے رکھا گیا ہے جو میرے دین کی مخالفت کرے ذلت و حقارت اس کا مقدر بنا دی گئی ہے اور جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کر ے

وہ انہی میں سے ہے اس رسم بد کی بنیاد جھوٹ پر ہے بالخصوص ایسا جھوٹ جس کے نتیجے میں متعدد جانیں ضائع ہو نے کا خطرہ ہے سیرت طیبہ نبویہ کا طرہ امتیاز ہے کہ آپؐ نے کسی ہنسی مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولا آپؐ کا مذاق بھی حکمت و دانا کی اور سچ پر مبنی ہوتا تھا

زندگی کے مسائل اور ایمانیات کو کو غیر سنجیدگی سے لینے کے بارے میں فرمایا کی اگر ان سے پوچھو کہ تم کیا کر رہے تھے تو فورا بولیں گے ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے ان سے کہو کہ کیا تمہاری ہنسی و دل لگی اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسولؐ کے ساتھ ہو سکتی ہے؟سب کو معلوم ہے

کہ اس قسم کے موقعے پر ان غیر سنجیدہ اور بے ہودہ لوگوں کے مذاق کا اہم ہدف دین اسلام اہل ایمان اور دین دار طبقے کا مذاق اڑانا ہے انہیں تحقیق سے دیکھنا دینداروں کی جھوٹی مسرتوں کے جنون کے شکار نوجوانوں کا محبوب مشغلہ ہے بزم خویش ہمارا پڑھا لکھا طبقہ ان کی پشت پناہی کو ہی اپنی ترقی پسندی کی علامت سمجھتا ہے اس رسم بد کی اہم بنیاد دھوکہ دہی ہے

اور اس کے بارے میں رسولؐ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسولؐ نے فرمایا کہ خبردار جس نے ہم سے دھوکہ کیا وہ نبی پاکؐ کا کسی سے اظہار برات اور اعلان لاتعلقی اس شخص کی بہت بڑی بد بختی ہے اور جب پوری اپنے طرز عمل سے یہ بد بختی سمیٹ رہی ہو تو اس کے لیے ہدایت کی دعا کی جا سکتی ہے ۔

اپریل فول بدترین روایت کے ذریعے وقتی اور عارضی طور پر لوگوں کو پریشان کیا جاتا ہے مذاق کے ذریعے کسی کو پریشان کرنا خود اس کا تماشہ دیکھنا شرعا منع اور حرام ہے بظاہر جھوٹے مذاق رسولؐ ہر اہل ایمان کی چھوٹی سی پریشانی بھی گراں گزرتی تھی اس لیے آپؐنے صراحت کے ساتھ منع فرمایااور کہا کہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو پریشانی میں مبتلا کرئے۔اپریل فول کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر بالکل واضع ہو جاتا ہے۔

اہل علم و دانش کو اس بارے میں قومی تزبیت کا اہتمام کرنا چاہتے اور عام طور پر اہل فکر کو قوموں کو عذاب سے بچانے کی فکر کرنی چاہیے دوسری طرف اصحاب فکر و فہم اور اہل تقوی اور ایمان اور سنجیدہ طبقے کو اپریل فول کی حماقتوں نالائقوں اور بد تمیزوں میں کسی قسم کی کوئی شرکت نہیں کرنی چاہیے۔ عملی طور پر تماشائی کے طور پر نہیں بلکہ ہمت و اہتمام سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کر کے رضائے الہی کے حصول کا سامان اور

بے مقصد اور بے جا بحث و جدل اور احساس کمتری کا شکار ہونے کی بجائے ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق اعراض کی پالیسی اپنانی چاہیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یقیناًایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی جو اپنی نمازیں خشوع وخضوع سے ادا کرتے ہیں جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں

نیز فرمایا کہ آپ درگزر کو اختیار کریں نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے اعراض کریں اور قرآنی تعلیمات پر مبنی یہ خوبصورت اور باوقار طرز عمل پر ہے اسی میں عزت و احترام ہے اصلاح کا ایک طریقہ ہے ان فضولیات کی تحقیر و تذلیل بھی ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھنے اور عمل کر نے کی توفیق عطا فرمائے.

اپنا تبصرہ بھیجیں