آزادی اظہار رائے پر پابندیاں مگر کیوں

قارئین کرام! ملک پاکستان میں مختلف سیاسی پارٹیوں کا میڈیا ٹرائل بذریعہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ہوتا آیا ہے مگر اس ٹرائل کے اصول و ضوابط ہوا کرتے تھے، سوشل میڈیا نے جب سے پاکستان میں ہوش سنبھالا ہے تو یہ پی ٹی آئی یعنی موجودہ حکمران جماعت کے ہاتھ چڑھ گیا‘یہ غالباً 10 سال قبل کی بات ہے جب ن لیگ اور پی ٹی آئی میں جنگ شروع ہوئی، سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی شروع ہوا جو گالیوں اور کردار کشی سے ہوتا ہوا آج اس نہج تک پہنچ چکا ہے کہ کسی کی عزت محفوظ نہیں رہی، اب جب پی ٹی آئی کے رہنماوں اور انکی فیملیز کی عزت پہ بات آئی ہے تو سوشل میڈیا کو لگام ڈالنے کی تیاری ہو رہی ہے جو کہ ناممکن بات نظر آ رہی ہے پاکستان تحریک انصاف کی ساری محنت سوشل میڈیا پر رہی ہے اور مخالف پارٹیوں کے مرد و خواتین پر کیچڑ اچھالنا ان کا ہی طرہ امتیاز ہے کہتے ہیں جب خود پہ بنتی ہے تو پتہ پھر چلتا ہے کہ کتنے بیس کا سو ہوتا ہے‘ابھی تو ایک خاتون اول کے بارے میں کہا گیا ابھی تو مراد سعید کے بارے میں اشارتاً کنایتاً بات کی گئی ابھی تو بہت کچھ ہونا باقی ہے سیانے کہتے ہیں جو بویا ہو وہ کاٹنا پڑتا ہے۔سوشل میڈیا پر میڈیا کیخلاف جو پراپیگنڈا کیا، غلیظ الفاظ استعمال کئے گئے اور کر رہے ہیں اور غلیظ ٹرینڈ اس حکومت اور اس کے حواریوں نے بنائے اور بنا رہے ہیں یہ کام شاید ہی سابقہ ادوار میں کسی ڈکٹیٹر نے بھی کئے ہوں‘میڈیا کو سوچی سمجھی سازش کے تحت ٹارگٹ کیا جا رہا ہے اور اس کے پیچھے وہی لابی ہے جو چاہتی ہے کہ ہم جیسا کہتے ہیں ویسا دکھایا جائے‘ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ میڈیا کے سامنے نہ کوئی ٹِک سکا ہے اور نہ ٹِک سکے گا جسکی زندہ مثال ”پیکا آرڈیننس” پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے ریمارکس ہیں ’اسکی زندہ مثال محسن بیگ ہے جس کو دبانے کی جتنی کوشش کی گئی وہ اتنا ہی اُبھر رہا ہے نچلی سطح پر پی ٹی آئی کے منتخب و غیر منتخب نمائندوں نے بھی مقامی میڈیا کیخلاف محاذ کھول رکھے ہیں اور آجکل مارکیٹ میں نیا طریقہ متعارف کرایا گیا ہے کہ خواتین کے ذریعے صحافیوں کو بلیک میل کیا جا رہا ہے اور پھر ان کے پیچھے چھپ کر اپنے غلیظ کارناموں کو انجام دیا جاتا ہے، شاید یہ بھول چکے ہیں کہ دو سال بعد انہوں نے اسی میڈیا کے پاس آنا ہے اور پھر سے منتیں کرنی ہیں، لیکن شاید پھر بہت دیر ہو چکی ہو گی۔چھوٹے چھوٹے عمران خان بھی مقامی سطح پر میڈیا کو اپنے کنٹرول میں کرنا چاہتے ہیں جو ناممکن سی بات ہے اور یہ چھوٹے چھوٹے عمران خان جب الیکشن میں بھیگی بِلی بنیں گے پھر انکو معلوم ہو گا کہ یہ پانچ سالوں میں کیا کرتے رہے ہیں عوام اور میڈیا احتساب کے بہترین پیمانے ہیں جنکو کبھی کوئی اپنی مرضی سے نہیں چلا سکا اور نہ ہی چلا سکتا ہے۔قارئین کرام! میڈیا اپنی اہمیت ہر دور میں رکھتا ہے، عروج و زوال معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں، جتنی ان ساڑھے تین سالوں میں میڈیا کو دبانے کی کوشش ہوئی اس سے ڈکٹیٹرشپ بہرحال بہتر ہوتی ہے، پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے جب ہر کام آرڈیننس کے ذریعے کیا جائے تو سمجھ جانا چاہیے کہ یہاں جمہوریت نہیں بلکہ آمریت چل رہی ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ بڑے عمران خان سے لے کر گلی محلے کے چھوٹے عمران خان تک سب ہوش کے ناخن لیں گے ورنہ میڈیا اور عوام کے پاس آپشن بہت سارے ہوتے ہیں۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں